[جب عدت گزارنے والی عورت شبہہ نکاح کے ساتھ وطی کرے تو اس کے ذمہ ایک اور عدت گزارنا واجب ہوگا اور وہ دو متداخل عدتیں گزارے گی۔ اسے جو حیض آئے گا، وہ دونوں عدتوں میں شمار ہوگا۔ جب پہلی عدت پوری ہوجائے اور دوسری عدت پوری نہ ہوئی ہو تو اس پر باقی ماندہ دوسری عدت پوری کرنا بھی واجب ہے۔ یہ ہمارا موقف ہے۔ جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ متداخل عدتیں نہیں گزارے گی]
واضح رہے کہ یہ جو اوپر لکھا گیا ہے کہ دوسری عدت کے ختم ہوجانے پر اگر ہندہ نکاح کرے تو وہ نکاح صحیح ہوگا، یہ اس تقدیر پر ہے کہ تجدیدِ نکاح کے بعد عبد الله نے ہندہ سے پھر صحبت نہ کی ہو، ورنہ ہندہ پر قول احوط کے مطابق ایک اور عدت واجب ہے اور جب یہ تیسری عدت بھی پوری ہوجائے، تب اگر نکاح کرے تو وہ نکاح صحیح ہوگا۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: أبو العلی محمد عبد الرحمن المبارکفوري، عفي عنہ۔ صح الجواب۔ أبو الفیاض محمد عبد القادر۔ الجواب صحیح۔ عبد الغفار۔ الجواب صحیح، و المجیب نجیح۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ حررہ راجي رحمۃ اللّٰه أبو الھدیٰ محمد سلامت اللّٰه المبارکفوري، عفا عنہ الباري۔ الجواب صحیح، و اللّٰه أعلم بالصواب۔ أبو محمد إبراہیم۔ (۱۷؍ محرم ۱۳۱۳ھ)
بیوہ عورتوں کے نکاح کا حکم:
سوال: 1۔ نکاح زنان بیوگان چہ حکم میدارد و لفظ ایامی کہ در کلام مجید وارد شدہ چہ معنی دارد؟
[بیوہ عورتوں کے نکاح کا کیا حکم ہے، نیز قرآن مجید میں وارد شدہ لفظ﴿اَیَّامٰی﴾ کا کیا معنی ہے؟]
2۔ مطلقاً نکاح واجب است یا سنت یا مستحب؟ [مطلقاً نکاح واجب ہے یا سنت ہے یا مستحب ہے؟]
جواب: افسوس ہے کہ اپنے آپ کو اہلِ اسلام کہلا کر جس کا ترجمہ ’’گردن نہادن بطاعت‘‘ [سرِ تسلیم خم کر دینا] ہے، پھر صریح حکم سے گریز کرنا اور نفرت ظاہر کرنا، اپنے دعوے کو آپ باطل کرنا ہے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَاَنْکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ﴾ [النور] بے شوہر عورتوں کا نکاح کر دو۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ہر بے شوہر عورت کا، خواہ بیوہ ہو خواہ ناکد خدا [غیر شادی شدہ] نکاح کرنا چاہیے۔ حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( النکاح من سنتي )) [1] [نکاح میری سنت ہے] (( فمن رغب عن سنتي فلیس مني )) [2] [جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی، اس کا مجھ سے تعلق نہیں ]
|