اپنے تحت لا سکتے ہیں ، اس میں بی بی کی رضا مندی کی ضرورت نہیں ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس رجعت سے اصلاح کی نیت ہو، یعنی بی بی کو اچھی طرح رکھنے کی نیت ہو، ایذا اور تکلیف پہنچانے کی نیت نہ ہو۔
قال اللّٰه تعالیٰ:﴿وَ بُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا﴾ [البقرۃ: ۲۲۸]
[اور ان کےخاونداس مدت میں انھیں واپس لینے کےزیادہ حق دار ہیں، اگر وہ (معاملہ) درست کرنے کا ارادہ رکھتےہوں ]
اگر طلاقِ ثانی کی عدت گزر چکی ہو تو اس بی بی کو اختیار ہے، چاہے دوسرے مرد سے نکاح کرے، چاہے عبد الله سردار سے کرے۔ الغرض اس میں بی بی کی رضا مندی کی ضرورت ہے، جس سے راضی ہو، اس سے نکاح کر سکتی ہے، اس پر کسی کا جبر نہیں پہنچتا۔ وقال تعالیٰ:﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ (بقرۃ، ع: ۲۹) [اور جب تم عورتوں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو، یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو] صرف ڈیڑھ برس گزر جانے سے نہیں کہا جا سکتا کہ عدت گزر گئی یا نہیں ؟ اس کو ٹھیک طور پر دریافت کر لیا جائے، اس لیے کہ عورتیں مختلف قسموں کی ہوتی ہیں ، لہٰذا ان کی عدتیں بھی مختلف ہیں ۔ واضح ہو کہ جواب جو لکھا ہے، یہ سوال کے اس مطلب کا جواب ہے جو سوال سے ظاہر ہوتا ہے اور اگر سوال کا کچھ اور مطلب ہو تو اِس جواب کو اُس مطلب کا جواب نہ سمجھیں ۔ فقط کتبہ: محمد عبد اللّٰه (فی دہلی)
بیک وقت تین طلاقوں کے بعد رجوع کا مسئلہ:
سوال: زید نے اپنی زوجہ ہندہ کو وقت لڑائی کے تین طلاق دیا اور بعد طلاق کے ڈیڑھ مہینے تک ہندہ اپنے شوہر سے الگ رہی، مگر ڈیڑھ ماہ کے بعد زید نے ہندہ کو پھسلا کر اپنی طرف میل جول کر لیا اور ہندہ بسبب ناواقفیت مسئلہ شریعت کے اس کے پاس قریب برس کے رہی اور اب اس کا افشا عام ہوگیا، پس ہندہ بھی اس سے واقف ہوگئی۔ اب ازروئے قرآن و حدیث کیا کیا جائے؟
جواب: اگر زید نے تین طلاق ایک ساتھ دیا ہے تو قطع نظر اس کے کہ یہ طلاق مبغوضِ الٰہی ہے، جیسا کہ مشکوۃ (ص: ۲۷۶ مطبوعہ انصاری) میں محمود بن لبید سے مروی ہے:
’’قال: أخبر رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا، فقام غضبان، ثم قال: (( أیلعب بکتاب اللّٰه ، وأنا بین أظھرکم )) حتی قام رجل فقال: یا رسول اللّٰه ! ألا أقتلہ؟‘‘[1] (روہ النسائي)
[رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا، جس نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’کیا میری موجودگی میں الله تعالیٰ کی
|