پہلے طلاق دے دو کہ انھیں ہاتھ لگاؤ] عورت مطلقہ کے ساتھ خاص ہے، چنانچہ خود آیتِ کریمہ میں لفظ﴿طَلَّقْتُمُوْھُنَّ﴾ موجود ہے۔ عورت متوفاۃ کے کل مہر کے واجب ہونے کا ثبوت شرعی یہ حدیث ہے:
’’عن علقمۃ عن ابن مسعود أنہ سئل عن رجل تزوج امرأۃ، ولم یفرض لھا شیئاً، ولم یدخل بھا حتی مات، فقال ابن مسعود: لھا مثل صداق نسائھا، لا وکس ولا شطط، وعلیھا العدۃ، و لھا المیراث، فقام معقل بن سنان الأشجعي فقال: قضی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في بروع بنت واشق امرأۃ منا بمثل ما قضیت، ففرح بھا ابن مسعود‘‘[1]
(رواہ الترمذي وأبو داود و النسائي والدارمي، مشکوۃ باب الصداق، ص: ۲۶۹، ’’وقال الترمذي: حدیث ابن مسعود حدیث حسن صحیح، وقد روي من غیر وجہ)
[علقمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا گیا، جس نے ایک عورت سے شادی کی، ابھی اس نے (مہر وغیرہ) کچھ مقرر نہ کیا تھا اور نہ اس سے صحبت ہی کی تھی کہ وہ فوت ہوگیا۔ عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے اس جیسی عورتوں کی مثل مہر ملے گا۔ نہ کم نہ زیادہ۔ اسے عدت بھی گزارنی ہوگی اور اسے (خاوند سے) وراثت بھی ملے گی۔ (یہ سن کر) معقل بن سنان اشجعی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ کے فیصلے جیسا فیصلہ کیا تھا۔ عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ اس پر خوش ہوئے]
’’سبل السلام شرح بلوغ المرام‘‘ (۲/ ۸۴) میں ہے:
’’والحدیث دلیل علی أن المرأۃ تستحق کمال المھر بالموت، وإن لم یسم لھا الزوج، ولا دخل بھا‘‘ اھو اللّٰه تعالیٰ أعلم
[مذکورہ بالا حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت وفات پر مکمل مہر کی مستحق ہوگی، اگرچہ خاوند نے اس کے لیے مہر مقرر کیا ہو اور نہ اس کے ساتھ خلوت کی ہو]
4۔ زیورات مذکورہ نہ ہندہ کی ملکیت شمار ہوں گی اور نہ ترکہ قرار پا کر ورثہ ہندہ پر تقسیم ہوں گی، بلکہ زید کے باپ کو، جس نے یہ زیورات ہندہ کو بغرض پہننے کے دیے تھے، واپس دے دیے جائیں گے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۳۲ھ)
بیوی کی وفات کے بعد زرِ مہر کس کو دیا جائے؟
سوال: کسی شخص کی بی بی مر گئی اور اس بی بی کا مہر شوہر کے ذمہ باقی رہ گیا ہے۔ اب شوہر اس دین مہر کو بی بی کے ماں باپ کو دے یا بی بی کی طرف سے راہِ خدا میں دے دے؟
|