دیکھ کر بالغ ہو (پھر اس کا حیض موقوف ہوجائے اور) اس کا طہر لمبا ہوجائے تو وہ عورت (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک) تین حیض آنے تک عدت میں ہی رہے گی، جب کہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک نو ماہ گزرنے سے اس کی عدت پوری ہوجائے گی۔ البزازیہ کے مصنف نے کہا ہے: ہمارے اس دور میں امام مالک رحمہ اللہ کے قول کے مطابق فتویٰ دیا جاتا ہے اور زاہدی نے کہا: ہمارے بعض اصحاب بوقتِ ضرورت اس کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔ النہر وغیرہ میں اس پر اعتراض کیا ہے: کسی دوسرے کے مذہب کے مطابق فتویٰ دینے کا کوئی سبب نہیں ہے، کیونکہ یہاں پر اس بات کا امکان موجود ہے کہ حاکمِ مالکی کے پاس مقدمہ لے جایا جائے اور وہ اپنے مذہب کے مطابق فیصلہ کرے۔ اسی بنا پر ابن وہبان نے اپنی منظومہ میں یہ موقف اختیار کیا ہے، لیکن ہم پہلے یہ عرض کر چکے ہیں کہ ہیں یہ اس صورت کے متعلق بات ہے، جب ضرورت ثابت ہوجائے اور حاکمِ مالکی میسر نہ ہو]
کتبہ: أضعف عباد الرحمن: محمد سلیمان، و اللّٰه أعلم بالصواب۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ الجواب صحیح۔ محمد عبدالرحمن المبارکفوري۔ مہر مدرسہ (۲۹؍ نومبر ۹۳ء)
اگر خاوند شروطِ نکاح کی پاسداری نہ کرے؟
سوال: 1۔عمرو نے نکاح اپنی دختر ہندہ کا بشراکت مرضی دختر خود زید کے ساتھ مشروط بشرائطِ ذیل کیا: ادائے دین مہر ۵۰۰، و نان و نفقہ سہ روپیہ ماہانہ، و اصلاح حال و مآل، و عدمِ تصرف بمالِ زوجہ و تراضی اور در رخصتی اور نکاح مبنی انھیں شرائط پر ہے۔ زید نے بعد نکاح ایفائے شرط نہیں کیا، اس کی نسبت کیا حکم ہے؟
2۔ مسماۃ ہندہ اپنے شوہر زید سے ناراض ہے اور وہ ناراضی ترقی پا کر عداوت ہوگئی ہے اور عداوت ایسی کہ تمام عمر دور ہونی غیر ممکن، بموجبِ شریعت ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
3۔ مسماۃ ہندہ اپنے شوہر سے کئی وجہ سے قطع تعلق چاہتی ہے اور شوہر طلاق نہیں دیتا، پس ازروئے قرآن و حدیث ان کے مابین کس طرح فیصلہ کرنا چاہیے؟
جواب: 1۔ ایفا ان شرطوں کا زید پر واجب ہے۔ مشکوۃ المصابیح (ص: ۲۶۳ مطبوعہ انصاری) میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( أحق الشروط أن توفوا بہ ما استحللتم بہ الفروج )) [1] (متفق علیہ)
[عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن شروط کے ساتھ تم نے شرم گاہ کو حلال بنایا ہے، وہ (شروط) زیادہ حق رکھتی ہیں کہ انھیں پورا کیا جائے]
اگر اپنی بی بی کو نان و نفقہ نہیں دے سکتا ہو اور عورت بے چاری تکلیف میں ہو تو تفریق جائز ہے۔ ’’دلیل
|