مچھلی کو فروخت کرنا:
سوال: مچھلی کو اپنے تالاب سے نکال کر اس کو بازار میں فروخت کرنا چاہیے یا نہیں ؟
جواب: اپنے تالاب کی مچھلی نکالی ہوئی اپنی مِلک ہے، جہاں چاہے فروخت کر سکتا ہے۔
دباغت سے قبل چمڑے کی خرید و فروخت کرنا: [1]
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ مردار کا چمڑہ بلا مدبوغ خرید و فروخت کرنا اور منفعت و قیمت کھانے و پینے میں استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: جائز نہیں ہے، جواز کے لیے دباغت شرط ہے۔ في المنتقی (ص: ۸):
عن ابن عباس قال: تصدق علی مولاۃ لمیمونۃ بشاۃ فماتت فمر بھا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال: ھلا أخذتم إھابھا فدبغتموہ فانتفعتم بہ؟ فقالوا: إنھا میتۃ؟ فقال: إنما حرم أکلھا۔ رواہ الجماعۃ إلا ابن ماجہ، قال فیہ عن میمونۃ جعلوہ من مسندھا، ولیس فیہ للبخاري والنسائي ذکر الدباغ بحال، وفي لفظ لأحمد: أن داجنا لمیمونۃ ماتت فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : ألا انتفعتم بإھابھا؟ ألا دبغتموہ؟ فإنہ ذکاتہ۔[2]
وعن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال: سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: أیما إھاب دبغ فقد طھر۔[3]
(رواہ أحمد ومسلم وابن ماجہ والترمذي)
وعن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أمر أن ینتفع بجلود المیتۃ إذا دبغت، رواہ الخمسۃ إلا الترمذي،[4] وللنسائي سئل النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم عن جلود المیتۃ فقال: دباغھا ذکاتھا[5] وللدارقطني عنھا عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: طھور کل أدیم دباغہ۔ قال الدارقطني: إسنادہ حسن کلھم ثقات۔[6]
وعن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال: ماتت شاۃ لسودۃ بنت زمعۃ فقالت: یا رسول اللّٰه ! ماتت فلانۃ، تعني الشاۃ فقال: لو أخذتم مسکھا۔ قالوا: أناخذ مسک شاۃ قد ماتت؟ فقال
|