کرے اور وہاں کے فقرا میں صرف و خرچ کردے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے۔ رہا ان کا یہ قول: تو جس نے طلب کے بعد (زکات) نکالی تو اس سے وہ کفایت نہ کرے گی اگرچہ وہ جاہل ہو۔ اس کے بعد اس کے لیے کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ ہم نے تمھارے سامنے اس کی وضاحت کر دی ہے کہ ان دلائل کے ساتھ اس کا معاملہ امام کے سپرد ہے، بلکہ جس شخص نے اس (امام) کی اجازت کے بغیراس کے غیر کو ادا کی اس سے وہ کفایت نہ کرے گی، اکثر ائمہ کی طرف سے یہ بات تو معلوم ہے کہ اہلِ علم و صلاح کا لوگوں کے اپنی زکات کو اس کے مصارف میں صرف کرنے کے عمل کو ان کے سپرد کرنا امام کی طرف سے اجازت ہی کے حکم میں ہے۔ یہ مثل ان کی عادت کے ہو جائے گا اور یہ ان کے لیے اجازت ہی کے مرتبے میں ہے، اگرچہ صراحتاً اجازت واقع نہ ہوئی ہو]
المجیب: محمد عبد اللّٰه الغازیفوري۔ الجواب صحیح۔ الحقیر حسین بن محسن الأنصاري الیماني، عفي عنہ۔ الجواب صحیح۔ محمد بشیر، عفی عنہ۔ الجواب صحیح۔ سلامت اللّٰه ، عفي عنہ۔
چندہ اکٹھا کر کے کارِ خیر میں خرچ کرنا:
سوال: زید اطراف و اکناف سے چندہ وصول کر کے کارِ خیر میں صَرف کیا کرتا ہے، مثلاً: مسجد و مدرسہ و خرچِ نکاح و پل و تالاب وغیرہ، آیا یہ شرعا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: اگر ان امور کی واقعی ضرورت ہو تو چندہ وصول کر کے ان امور میں صَرف کرنا جائز ہے، ورنہ ناجائز۔
عن جریر قال: کنا في صدر النھار عند رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فجاء ہ قوم حفاۃ عراۃ مجتابي النمار أو العباء، مقلدي السیوف، عامتھم من مضر، بل کلھم من مضر، فتمعر وجہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم لما رأی بھم من الفاقۃ، فدخل، ثم خرج، فأمر بلالا فأذن وأقام، فصلیٰ، ثم خطب، فقال:﴿یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ۔۔۔﴾ [النساء: ۱] إلی آخر الآیۃ:﴿اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا﴾ والآیۃ التي في الحشر:﴿اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ﴾ [الحشر: ۱۸] تصدق رجل من دینارہ، من درھمہ، من ثوبہ، من صاع برہ، من صاع تمرہ، حتیٰ قال: ولو بشق تمرۃ، قال فجاء رجل من الأنصار بصرۃ کادت کفہ تعجز عنھا، بل قد عجزت، ثم تتابع الناس۔۔۔‘‘[1] الحدیث (رواہ مسلم)
[جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم دن کے آغاز میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھے کہ کچھ لوگ آئے،
|