اپنے بیٹوں ، یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں ، یا اپنے بھائیوں (کے لیے)]
جس چیز کا جواز و اباحت شرع شریف سے بلا اشتباہ ثابت ہو اور شارع کی طرف سے اس میں احتیاط کرنے کو نہ فرمایا گیا ہو، اس سے احتیاط کرنا شرعاً ناجائز ہے۔
عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا قالت: صنع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم شیئاً فرخص فیہ فتنزہ عنہ قوم، فبلغ ذلک رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فخطب، فحمد اللّٰه ثم قال: (( ما بال أقوام یتنزھون عن الشییٔ أصنعہ، فو اللّٰه إني أعلمھم ب اللّٰه وأشدھم لہ خشیۃ )) [1] (متفق علیہ، مشکوۃ شریف، ص: ۲۷)
[سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں رخصت دے دی تو کچھ لوگوں نے رخصت کو قبول کرنے سے اجتناب کیا، پس رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں پتا چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور الله تعالیٰ کی حمد بیان کی، پھر فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ جو کام میں کرتا ہوں ، وہ اس سے دور رہتے ہیں ، الله کی قسم! میں الله کے متعلق ان سے زیادہ جانتا ہوں اور ان سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں ]
عورتوں کے محرم وہ لوگ ہیں ، جن سے ان عورتوں کا نکاح کبھی حلال نہیں ۔ ’’المحرم من لا یحل لہ نکاحھا‘‘[2] (مجمع البحار) [اور (عورتوں کے) محرم وہ ہیں ، جن سے ان عورتوں کا نکاح کبھی حلال نہیں ] لفظ ’’حمو‘‘ میں ازروئے لغت کے زوج کا باپ بھی داخل ہے اور سورہ نور کی آیتِ مذکورہ بالا سے حکمِ حدیث وہ مخصوص ہے۔ یہی آیت و حدیث میں مطابقت ہے۔
ٹوپی پر محمڈن برادر لکھنا اور اسے پہن کر بیت الخلاء جانا:
سوال:1۔ ٹوپی پر محمڈن برادر لکھنا جائز ہے یا نہیں ؟
2۔ جس ٹوپی پر محمڈن برادر لکھا ہو، اس ٹوپی کو پہن کر پاخانہ جانا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: 1۔ٹوپی پر محمڈن برادر لکھنے کے ناجائز ہونے کی کوئی و جہ معلوم نہیں ہوتی۔ ہاں صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو دعوت نامے اسلام کے کافر بادشاہوں کے پاس بھیجتے تھے، اُن پر مہر کر کے بھیجتے تھے، جس پر ’’محمد رسول اللہ ‘‘ منقوش تھا نیز ان نامہ جات میں بسم الله الرحمن الرحیم اور قرآن مجید کی آیت لکھی ہوتی تھی۔ مشکوۃ (ص: ۳۷۰) میں ہے:
’’عن أنس أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أراد أن یکتب إلی کسری وقیصر والنجاشي فقیل: إنھم لا یقبلون کتابا إلا بخاتم فصاغ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم خاتما حلقۃ فضۃ نقش فیہ محمد رسول اللّٰہ )) [3] (رواہ مسلم)
|