عورت کو ایک مہینے میں تین بار حیض آیا تو اس کی تصدیق کر لی جائے گی۔
پس صورت مسؤلہ میں اگر دہے ثانی کا خون بھی حیض کا خون ہے تو عورت مذکورہ دونوں میں نماز چھوڑ دے، ورنہ صرف آخر دہے میں نماز چھوڑ دے عادت کے موافق اور دہے ثانی میں نماز پڑھے، لیکن یہ ہر نماز کے وقت تازہ وضو کر لیا کرے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه
وضو میں پاؤں دھونا ہی ضروری ہے:
سوال:﴿یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ﴾ [المائدۃ: ۶]
[اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھو لو)]
صاحب الوحی جواب: نے پیر کا دھونا ارشاد فرمایا ہے، جیسا کہ قاعدہ نحو سے مفہوم ہوتا ہے یا پیر کا مسح کرنا؟ نیز کیا کوئی حدیث صحیح صحاحِ اہلِ سنت و جماعت سے بجائے پیر دھونے کے مسح کرنے کے متعلق ثابت ہوئی ہے یا نہیں ؟
جواب: حضرت صاحب الوحی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کا دھونا ارشاد فرمایا ہے اور خود بھی برابر پیر دھویا ہے۔ احادیثِ صحیحہ اس باب میں بکثرت وارد ہیں ، بلکہ تواتر کی حد کو پہنچ گئی ہیں اور کسی حدیث صحیح صحاحِ اہلِ سنت وجماعت سے بجائے پیر دھونے کے، مسح کرنا ثابت نہیں ہوا ہے۔
صحیح بخاری مع فتح الباری (۱/ ۱۱۳۳) چھاپہ دہلی میں ہے:
باب غسل الرجلین، ولا یمسح علی القدمین۔ حدثنا موسیٰ بن إسماعیل قال[1] [حدثنا أبو عوانۃ عن أبي بشر عن یوسف بن ماھک عن عبد اللّٰه بن عمرو قال: تخلف النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم عنا في سفرۃ سافرناھا، فأدرکنا، وقد أرھقنا العصر، فجعلنا نتوضأ، ونمسح علی أرجلنا فنادیٰ بأعلیٰ صوتہ: ویل للأعقاب من النار] [2]
[پاؤں کو دھونے اور قدموں پر مسح نہ کرنے کا بیان۔ عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک سفر میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے تو ہمیں اس وقت ملے، جب نماز کا وقت تھوڑا ہی رہ گیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے تو ہم اپنے پاؤں کو تھوڑا تھوڑا مسح کرنے کی طرح دھو رہے تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا: ایڑھیوں کے لیے جہنم سے ہلاکت ہے، یعنی پاؤں کو اچھی طرح دھویا کرو]
٭٭٭
|