کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۳؍ربیع الاول ۱۳۳۱ھ الجواب صحیح۔ ابو یوسف محمد عبد المنان غازی پوری مدرس مدرسہ ریاض العلوم دہلی (۲۳؍ربیع الاول) أصاب من أجاب۔ محمد بن عبد الله مؤی اعظمی مقیم دہلی (۲۳ربیع الاول) ابو القاسم محمد لطف الرحمن۔ من یرد اللّٰه بہ خیرا یفقھہ في الدین۔ محمد عبد العزیز بن مولوی عبد السلام مبارک پوری۔
مسجدِ ضرار کا اطلاق کس مسجد پر ہوتا ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ایسی مسجد کے بارے میں جس میں متولی نام نہادی پسربانی مسجد کا کبھی قول صریحی اپنی ملکیت کا ہو اور کبھی اس قول کے تعاقب پر قول صریحی سے انکار پر اُس سے افعال اور حرکات ایسے سرزد ہوتے ہیں ، جو ملکیت پر اس کی سراسر دال ہیں ، نماز پڑھنے کا ثواب مسجد کا ملے گا یا گھر کا؟ من جملہ افعال کے ایک فعل مزاحمت اصلاحِ مسجد ہے اور وہ اصلاح باتفاق تمامی نمازیان مسلمانان کے کی جاتی ہے اور اصلاح یہ ہے کہ ایک دروازہ جانب شمال متصل شارع عام دیوار میں صحن مسجد کے کھول کر قائم کیا جائے اور دیوار اسی جانب اور کچھ مغرب کی ایک حد مناسب تک پست کر دیں ، ان دونوں امروں کے ہونے سے من جملہ اور فوائد کے یہ بہت بڑا فائدہ ہوگا کہ نمازِ عشاء کی مسجد میں ، جو بوجہ خوفناک ہونے مسجد کے دید اور شنید سے صورت اور آواز مہیب متصل قبر نو احداث کے، متروک ہے، ہوا کرے گی اور یہ خوف تب ہی پیدا ہوا ہے، جب متولی اور وارثان بانی مسجد نے بزور خلاف رائے مسلمانوں کے اپنے باپ کو صحن مسجد میں دفن کیا ہے۔ یہ فعل بھی خالی از دلالت بر ملک نہیں ۔ پس اگر بلحاظ اس مزاحمتِ اصلاح اور ملاحظہ دیگر امور شور و فساد کے جو اکثر باقدام متولی و برادران اس کے ہوا کرتا ہے، دوسری مسجد اتفاق سے تمامی نمازیان مسلمانان کے بنائی جائے تو اُس مسجد پر اطلاق مسجد ضرار کا ہوگا یا نہیں ؟
جواب: مسجد ضرار کا اطلاق اس مسجد پر ہوگا، جو مسلمانوں کو ضرر پہنچانے اور کفر کو قوت دینے اور مسلمانوں میں تفریقِ جماعت کرنے اور الله و رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کی گھات بنانے کے لیے بنائی جائے، نہ کہ اس غرض سے جو سوال میں مذکور ہے، یعنی جو غرض سوال میں مذکور ہے، اس غرض سے جو دوسری مسجد بنائی جائے تو اس مسجد پر مسجدِ ضرار کا اطلاق نہ ہوگا۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًام بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ﴾ [سورہ براء ت، رکوع: ۱۳] [اور وہ لوگ جنھوں نے ایک مسجد بنائی نقصان پہنچانے اور کفر کرنے (کے لیے) اور ایمان والوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے (کے لیے) اور ایسے لوگوں کے لیے گھات کی جگہ بنانے کے لیے جنھوں نے اس سے پہلے الله اور اس کے رسول سے جنگ کی]
لیکن مسجد سابق بدستور مسجد رہے گی، اس میں کسی کے دعوے ملکیت یا بے جا مزاحمت سے اس کا مسجد اور وقف ہونا باطل نہیں ہوسکتا۔ ہاں دعواے ملکیت یا بے جا مزاحمت کرنے والا البتہ بڑا گنہگار ہوگا۔ و اللّٰه أعلم بالصواب
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ)
|