صلاتکم فإنا قوم سفر‘‘
[عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں زہری سے، انھوں نے سالم بن عبد الله سے اور انھوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ جب مکے میں تشریف لاتے تو ان کو دو رکعت نماز پڑھا کر فرماتے: اے مکہ والو! تم اپنی نماز مکمل کر لو، ہم تو مسافر لوگ ہیں ] کتبہ: محمد عبد اللّٰه
نمازِ تراویح کے مسائل
نمازِ تراویح کی رکعات:
سوال: 1۔ایک شخص نے نمازِ تراویح پڑھائی، چھ رکعت پڑھ کر تین وتر پڑھ لیے۔ کیا درست ہے یا نہیں ؟ اس کے صواب یا ناصواب ہونے میں حدیث و آثار سے کیا مروی ہے؟
2۔ یہ نمازِ تراویح نمازِ تہجد ہے یا نہیں یا ایسی نماز ہے کہ رات کی نماز کہی جا سکے؟ اس کا حکم رات کی نماز کا سا، یعنی دو رکعت یا چار رکعت یا چھ رکعت پڑھ لینا درست ہے یا نہیں ؟
3۔ جس طرح نمازِ وتر کے واسطے یہ حکم ہے کہ آخر رات میں پڑھی جائے، اگر کسی سے نہ ہوسکے تو اول رات میں پڑھ لے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نمازِ تراویح اس طرح پڑھے کہ نماز تہجد کی ہو بوجہ رمضان کے اور لوگوں کو مشقت و تکلیف میں نہ پڑنے اور ثواب سے نہ محروم رہنے کے لیے آپ نے اول رات میں اجازت فرمائی ہوں ، جس طرح وتر کے لیے اول رات میں پڑھنے کی اجازت فرمائی؟ جواب قرآن و حدیث و آثار یا ائمہ محدثین سے ہو۔
جواب: ان سوالوں کا جواب رسالہ ’’رکعات التراویح‘‘ سے حاصل کیجیے، جو تیسری بار دہلی میں چھپا ہے۔[1]
بیس رکعت تراویح کا ثبوت[2]:
سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ قیامِ رمضان یعنی تراویح کسی حدیث صحیح مرفوع متصل الاسناد سے بیس رکعت کا پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یا خلفاے اربعہ سے ثابت ہے یا نہیں اور برتقدیرِ عدمِ ثبوت پڑھنا بیس رکعت کا افضل ہے یا گیارہ رکعت کا؟
جواب: ماہرینِ شریعت غرا پر مخفی نہ رہے کہ پڑھنا بیس رکعت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ، اس واسطے کہ صحیح حدیثوں سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا ہے، بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں یا غیر رمضان میں زیادہ گیارہ رکعت (سے) نہیں پڑھتے تھے[3]۔ لیکن یہ روایت
|