عورتوں کا پاؤں میں پھول کا کڑا پہننا:
سوال: دونوں پاؤں میں پھول کا کڑا پہننا عورتوں کو جائز ہے یا نہیں اور حدیث شریف سے اس کا وجود ثابت ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کون سی روایت و حدیث سے ثابت ہے؟
جواب: عورتوں کو پھول کا کڑا پہننا، اس کے منع کے بارے میں کوئی آیت یا صحیح حدیث وارد نہیں ہے تو حسبِ آیتِ کریمہ:﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ﴾ [سورۂ أعراف، رکوع: ۴] [تو کہہ کس نے حرام کی الله کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی] اس کا پہننا جائز ہوگا۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه
سدل کیا ہے؟
سوال: زید ایک ڈوپٹہ اس طرح ڈالتا ہے کہ ایک سرا آگے لٹکاتا ہے اور دوسرا سرا بائیں ہاتھ کے نیچے سے لے جا کر داہنے شانہ پر پیچھے کی جانب لٹکا لیتا ہے۔ نماز بھی اسی طرح پڑھتا ہے۔ عمرو کہتا ہے کہ یہ سدلِ ثوب ہے، جو مکروہ ہے۔ زید کا قول ہے کہ اس پر سدلِ ثوب کی تعریف صادق نہیں آتی ہے اور احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتحفاً نماز پڑھی ہے۔ شمائل میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث چادر اوڑھنے میں جو مروی ہے، نفس اس امر کو کہ ایک سرا آگے کی جانب اور دوسرا پیچھے کی جانب لٹکانے میں شامل ہے۔ پس امر استفسار طلب یہ ہے کہ سدل کی عند الفقہاء کیا تعریف ہے اور یہ امر سدل ہے یا نہیں ؟
جواب: 1۔سدل کی تعریف عند الفقہاء حسبِ ذیل ہے:
في الھدایۃ: ’’ھو أن یجعل ثوبہ علی رأسہ أو کتفیہ، ثم یرسل أطرافہ من جوانبہ‘‘[1]اھ
[ہدایہ میں ہے: (سدل یہ ہے کہ) وہ اپنا کپڑا اپنے سر یا کندھوں پر رکھے، پھر اس کے کناروں کو (بغیر ملائے) چھوڑ دے]
وفي شرح الوقایۃ نقلاً عن المغرب: ’’ھو أن یرسلہ من غیر أن یضم جانبیہ‘‘[2]اھ
[شرح وقایہ میں مغرب سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ (سدل) یہ ہے کہ اس کے کناروں کو ملائے بغیر چھوڑ دے]
وفي العالمگیریۃ: ’’ھو أن یجعل ثوبہ علی رأسہ أو کتفیہ فیرسل جوانبہ‘‘[3]اھ
[فتاویٰ عالمگیری میں ہے: (سدل یہ ہے کہ) وہ اپنا کپڑا اپنے سر یا اپنے کندھوں پر اس طرح رکھے کہ اس کے کناروں کو کھلا چھوڑ دے]
وفي رد المحتار نقلاً عن البحر الرائق: ’’وفسرہ الکرخي بأن یجعل ثوبہ علی رأسہ
|