وعن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما رفعہ: (( سووا بین أولادکم في العطیۃ، فلو کنت مفضلا أحدا لفضلت النساء )) [1] (أخرجہ سعید بن منصور والبیھقي من طریقہ، وإسنادہ حسن، فتح الباري: ۱۰/ ۵۳۶ مطبوعہ أنصاري)
[سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے: عطیہ دینے میں اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اگر میں کسی کو فضیلت و ترجیح دینے والا ہوتا تو عورتوں کو ترجیح دیتا]
کتبہ: أضعف عباد الرحمن: أبو عبد المنان محمد سلیمان بوأہ بحبوحۃ الجنان۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ جواب صحیح ہے۔ محمد عین الحق، عفي عنہ۔ المجیب مصیب عندي، و اللّٰه أعلم بالصواب۔ أبو محمد إبراہیم غفر لہ ولوالدیہ۔
ہبہ اور اِبراء:
سوال: 1۔ہبہ اور ابراء میں کچھ فرق ہے یا دونوں ایک چیز ہے؟
2۔ معافی دین از قسم ہبہ ہے یا مجرد ابراء و اسقاطِ حق ہے؟
3۔ در صورت فرق ہونے درمیان ہبہ اور ابراء کے، اگر ہبہ دین کا لفظ میت کی نسبت استعمال کیا جائے، یعنی یوں کہا جائے کہ میں نے یا فلاں شخص نے اپنا دین میت کو ہبہ کر دیا تو اس صورت میں ہبہ کے حقیقی معنی مراد ہوں گے یا اس ہبہ سے ابراء و اسقاطِ حق مراد ہوگا؟
ان سوالوں کا جواب مطابق فقہ حنفی کے ارقام فرمایا جائے۔
جواب: 1 2و ہبہ اور ابراء میں اصلی معنی کے اعتبار سے فرق ہے۔ ہبہ کے اصلی معنی ہیں تملیک اور ابراء کے اصلی معنی ہیں اسقاطِ حق۔ اسی وجہ سے دونوں کے بعض بعض شرائط اور احکام بھی مختلف ہیں :
1 ۔ہبہ میں قبول شرط ہے، ابراء میں نہیں ۔
2 ۔ہبہ میں حق رجوع حاصل ہے، بشرطیکہ کوئی مانع، موانعِ رجوع میں سے موجود نہ ہو اور ابراء میں حقِ رجوع اصلاً حاصل نہیں ۔ حموی شرح اشباہ و نظائر (ص: ۲۶۹ چھاپہ مصطفائی دہلی) میں ہے: ’’الإبراء إسقاط، والھبۃ تملیک‘‘ اھ [ابراء اسقاطِ (حق) ہے اور ہبہ تملیک] ’’اشباہ و نظائر‘‘ صفحہ مذکور میں ہے:
’’ما افترق فیہ الھبۃ والإبراء۔ یشترط لھا القبول بخلافہ، ولہ الرجوع فیھا عند عدم المانع بخلافہ مطلقا‘‘ اھ
[ہبہ اور ابراء میں فرق یہ ہے کہ ہبہ میں قبول شرط ہے، برخلاف ابراء کے، ہبہ میں کوئی مانع نہ ہونے کی صورت میں حقِ رجوع حاصل ہے، جب کہ ابراء میں اصلاً یہ حق حاصل نہیں ہے]
لیکن کبھی کبھی ابراء پر بھی لفظِ ہبہ کا اطلاق مجازاً کیا جاتا ہے، چنانچہ دین کے معاف کر دینے کو کہ یہ ابراء و اسقاطِ حق
|