الرجل إذا أعطاہ مالا مقارضۃ، یضرب لہ بہ أن لا تجعل مالي في کبد رطبۃ، ولا تحملہ في بحر، ولا تنزل بہ بطن سیل، فإن فعلت شیئا من ذلک فقد ضمنت مالي۔ رواہ الدارقطني‘‘ انتھی وفي نیل الأوطار: ’’الأثر أخرجہ أیضاً البیھقي، وقویٰ الحافظ إسنادہ‘‘[1]و اللّٰه أعلم بالصواب
[منتقیٰ میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ کسی آدمی کو تجارت کے لیے مال دیتے تو اس پر یہ شرط عائد کرتے کہ تم میرے مال سے جاندار چیزوں کی تجارت نہیں کرو گے، نہ تم اسے سمندری سفر پر لے جاؤ گے نہ سیلابی زمین میں جاؤ گے۔ اگر تم نے ان کاموں میں سے کوئی کام کیا تو تم میرے مال کے ضامن ہوگے۔ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور نیل الاوطار میں ہے کہ اس اثر کو بیہقی نے بھی بیان کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو قوی قرار دیا ہے]
کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ أصاب من أجاب۔ محمد ضمیر الحق عفي عنہ، الجواب صحیح۔ ألفت حسین۔ أصاب من أجاب۔ أبو محمد إبراہیم۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمود، عفي عنہ۔ الجواب صحیح۔ وصیت علی، مدرس دوم مدرسہ أحمدیہ۔ الجواب صحیح۔ شیخ حسین بن محسن۔
معین نفع کے ساتھ کاروبار میں پیسا لگانا:
سوال: ایک کمپنی جس کے شرکا ہنود ہیں اور اس کمپنی میں سودی معاملات بھی جاری ہیں اور تجارت کا کام بھی ہے۔ ہر ایک کی شاخ جداگانہ ہے۔ اس کمپنی میں جو شخص جس شاخ میں روپیہ دے، اس کو کمپنی مذکور منافع معین ایک خاص شرح سے دیتی ہے اور باقی منافع اس روپیہ کا حق المحنت میں کمپنی لیتی ہے۔ اگر کوئی مسلمان تجارتی شاخ کمپنی مذکور میں دے اور منافع کا بشرح معین حصہ شش ماہی یا سالانہ لیتا رہے تو شرعاً درست ہے یا نہیں ؟ جواب مدلل بہ آیت و حدیث یا بہ سند فقہ کے ہونا ضروری ہے۔
جواب: صورتِ مسؤل عنہا شرعاً درست نہیں ہے، کیونکہ جب کمپنی مذکور روپیہ دینے والے کو منافع معین ایک خاص شرح سے دیتی ہے تو یہ صورت شرکت فی التجارۃ کی نہیں ہوئی، بلکہ قرض کی صورت ہوگی کہ کمپنی مذکور روپیہ لے کر شش ماہی یا سالانہ ایک خاص شرح سے سود دیتی ہے۔ روپیہ دینے والے کو نفع و نقصان سے کوئی غرض متعلق نہیں ۔ الغرض یہ صورت ربا کی صورتوں میں داخل ہے، جو شرعاً قطعی حرام ہے۔ لقولہ تعالیٰ:﴿ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ [البقرۃ: ۲۷۵] [اور سود کو حرام کیا]
(ہدایۃ کتاب الشرکۃ): ’’ولا تجوز الشرکۃ إذا شرط لأحدھما دراھم مسماۃ من
|