سو واضح ہو کہ یہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں ، بلکہ اور لوگوں کا قول ہے۔ یہاں پر صحیح مسلم کی عبارت نقل کی جاتی ہے، تاکہ ناظرین کو خود اس کی کیفیت معلوم ہوجائے:
’’قال ابن أبي عمرۃ أنھا کانت رخصۃ في أول الإسلام لمن اضطر إلیھا کالمیتۃ والدم ولحم الخنزیر ثم أحکم اللّٰه الدین ونھی عنھا‘‘[1]
یعنی متعہ کرنا جسے اضطرار کی حالت ہو تو اس کے لیے ابتداے اسلام میں جائز تھا، جیسا کہ مردہ اور گوشت خنزیر کا حالتِ اضطرار میں جائز ہے۔ پھر الله تعالیٰ نے اپنے دین کی باتوں کو محکم اور دوامی قرار دیا اور متعہ سے منع فرمایا۔
ایک عذرِ نامعقول یہ کیا جاتا ہے کہ محدثین نے ’’باب نکاح المتعۃ‘‘ منعقد کیا اور کتبِ حدیث میں اس کو لفظِ نکاح سے تعبیر کیا گیا اور جب اس کو نکاح کہا گیا تو اب ہم اس کو مثل زنا کے نہیں کہہ سکتے۔ یہ بھی سخت غلط فہمی ہے، اس کو نکاح اس لیے کہا گیا کہ اس میں ظاہراً صورت عقد کی پائی جاتی ہے، اس لیے اس کو تزویج و نکاح کہا گیا۔ ابو داود و نسائی وغیرہ میں ابو بردۃ سے مروی ہے:
’’انہ بعثہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم إلی رجل تزوج امرأۃ أبیہ من بعدہ أن یقتلہ و یأخذ مالہ‘‘[2]
یعنی ابو بردہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی طرف بھیجا، جس نے اپنے باپ کی عورت سے نکاح کر لیا تھا اور حکم فرمایا کہ اس شخص کو قتل کر ڈالو اور اس کا مال لے لو۔
یہاں پر باپ کی منکوحہ سے عقد کرنے کو’’ تزوج‘‘ یعنی نکاح کہا گیا، حالانکہ یہ فعل زنا سے بھی بڑھ کر ہے، کیونکہ زنا کی سزا کوڑے مارنا یا سنگ سار کرنا مقرر کی گئی، فعل مذکور کی طرح قتل کر ڈالنا اور مال لے لینا نہیں قائم کیا گیا اور الله تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ لَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ﴾ [النساء: ۲۲] [اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو، جن سے تمھارے باپ نکاح کر چکے ہوں ] یہاں بھی فعل مذکور پر لفظِ نکاح بولا گیا۔یہی مسلک تاج المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ امام ابن خزیمہ و امام ابن حزم صاحب محلیٰ وغیرہم رحمہم اللہ کا ہے۔ اگر تفصیل کی ضرورت ہوئی تو آیندہ ان شاء الله مفصل طور پر لکھا جائے گا۔ کتبہ: محمد عبدالجبار عمر پوری
طلاق کے بغیر دوسرا نکاح کرنا:
سوال: زید نے اپنی لڑکی ہندہ نابالغہ کا نکاح بکر کے ساتھ کیا۔ زید نے بعد بلوغ ہندہ کے چاہا کہ میں بغیر طلاق بکر کے، ہندہ کا نکاح ساتھ دوسرے کے کر دوں اور ہندہ بعد بلوغ کے نکاحِ ثانی پر راضی نہیں ہے، اس صورت میں ہندہ کا نکاح بغیر طلاق دیے ہوئے بکر کے جائز ہے یا نہیں ؟
|