بیعِ سلم جائز ہے:
سوال: ایک شخص نے ایک شخص سے بماہ بھادوں ایک روپیہ اس شرط پر لیا کہ ماہِ چیت میں چار پنجیری یعنی بیس سیر دوں گا، حالانکہ ماہِ بھادوں میں گیہوں تیرہ سیر بکتی تھی اور ماہِ چیت، جس کا وعدہ انھوں نے کیا ہے، اس مہینے میں وہی تیرہ سیر بکتی ہے تو اس صورت میں بیس سیر مطابق وعدہ کے لینا درست ہے یا نہیں ؟ بینوا تؤجروا۔
جواب: اس صورت میں بیس سیر مطابق وعدہ کے لینا درست ہے، اس معاملے کا نام شرع شریف میں سَلَم ہے۔ سلم کو سلف بھی کہتے ہیں ۔ سلم میں جو چیز مدت پر لی جائے، اس کا کیل یا وزن اور مدت معلوم ہوجانا شرط ہے اور اس صورت میں یہ شرط پائی جاتی ہے۔
مشکوۃ شریف (ص: ۲۴۲ چھاپہ انصاری دہلی) میں ہے:
(( من أسلف في شيء فلیسلف في کیل معلوم و وزن معلوم إلیٰ أجل معلوم )) [1] (متفق علیہ) و اللّٰه أعلم بالصواب
[جو شخص کسی شے میں بیع سلف کرے تو اسے چاہیے کہ معلوم ماپ اور معلوم تول کے ساتھ معلوم مدت کے لیے بیع سلف کرے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه
سوال: کیا جناب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کی چیزوں پر پیشگی بھاؤ مقرر کر کے روپیہ دیتے تھے اور وقت معین پر وہ جنس اسی بھاؤ کے بموجب لیتے تھے؟ ایسا خریدنا حدیثوں سے ثابت ہے یا نہیں ؟
جواب: ایسا خریدنا حدیث سے ثابت ہے اور اس کو سلم اور سلف کہتے ہیں ۔ مشکوۃ شریف (۲۴۲ مطبوعہ دہلی) میں ہے:
عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال: قدم رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم المدینۃ، وھم یسلفون في الثمار السنۃ والسنتین والثلاث، فقال: (( من أسلف في شيء فلیسلف في کیل معلوم و وزن معلوم إلی أجل معلوم )) [2] (متفق علیہ) و اللّٰه أعلم بالصواب
[عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت، انھوں نے فرمایا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ دو دو تین تین سال پہلے رقم دے کر پھل خرید لیتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی شے میں بیع سلف کرے تو اسے چاہیے کہ معلوم ماپ اور معلوم تول کے ساتھ معلوم مدت کے لیے بیع سلف کرے]
کتبہ: محمد عبد اللّٰه
سوال: اگر کوئی شخص پانچ پسیری مکئی یا جَو کسی کو دے اور چار ماہ کے بعد چار پسیری چاول لے تو جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: اگر کوئی پانچ پسیری مکئی یا جو کسی کو دے اور چار مہینے کی مدت پر جو بوقت دینے کے قرار پا چکی ہے، چار پسیری
|