چنانچہ حکم دیتے کہ سواری کَسی جائے اور زبور پڑھنا شروع کر دیتے، پھر قبل اس کے کہ سواری کَسی جائے، پوری زبور ختم کر دیتے۔ (مشکوۃ شریف، ص: ۵۰۰) [1]
فتح الباری جلد تین طبع دہلی میں اس حدیث کی شرح میں ہے: ’’وفي الحدیث أن البرکۃ قد تقع في الزمن الیسیر حتی یقع فیہ العمل الکثیر‘‘[2] [اس حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ کبھی برکت تھوڑے سے وقت میں نازل ہوتی ہے، تاکہ اس میں زیادہ عمل کیا جائے] مرقاۃ شرح مشکوۃ (۵/ ۳۴۴) میں ہے:
’’قد دل الحدیث علیٰ أن اللّٰه تعالیٰ یطول الزمان لمن یشاء من عبادہ، کما یطوي المکان لھم‘‘ و اللّٰه تعالیٰ أعلم
[یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ الله تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے زمان کو طویل کر دیتا ہے، جس طرح ان کے لیے مکان کو سکیڑ دیتا ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۴؍ذیقعدہ ۱۳۲۹ھ)
کیا نماز میں دیکھ کر قرآن پڑھنا مفسدِ نماز ہے؟
سوال: نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا مفسدِ نماز ہے یا نہیں ؟
جواب: نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا مفسدِ نماز نہیں ہے۔ قرآن مجید اور حدیث شریف سے اسی قدر ثابت ہے کہ نماز میں قرآن پڑھو۔ زبانی پڑھو یا دیکھ کر پڑھو، اس کی کوئی قید نہیں ۔ سورت مزمل رکوع (۲) میں ہے:﴿فَاقْرَؤا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾ [المزمل: ۲۰] [تو قرآن میں سے جو میسر ہو پڑھو] مشکوۃ شریف (ص: ۶۷ چھاپہ انصاری دہلی) میں ہے: ((ثم اقرأ بما تیسر معک من القرآن )) (متفق علیہ) [پس قرآن سے پڑھو، جو تمھیں بہ آسانی یاد ہو]
پس جس طرح نماز میں زبانی قرآن پڑھنے سے نماز صحیح ہوتی ہے، اسی طرح دیکھ کر پڑھنے سے صحیح ہوگی اور مطلق کی تقیید رائے اور قیاس سے جائز نہیں ہے۔ اصول میں یہ مسلمہ مسئلے ہے: ’’المطلق یجري علی إطلاقہ‘‘[3] [مطلق اپنے اطلاق پر باقی رہتا ہے] اسی اصولی مسئلے پر بہت سے فقہی مسائل کی بنا ہے، ازاں جملہ ایک یہ مسئلہ ہے کہ جب مظاہر [ظِہار کرنے والا شخص] کفارۂ ظِہار میں اثنائے اطعام اپنی زوجہ سے، جس سے ظِہار کیا تھا، جماع کر لے تو اس پر استینافِ اِطعام واجب نہیں ہے، کیونکہ قرآن مجید میں کفارہ ظِہار میں اِطعام کا لفظ مطلق ہے، پس قیاساً علی الصوم اس میں قید عدمِ جماع کی لگانی، جائز نہیں ۔
اصول شاشی (ص: ۹ چھاپہ مجتبائی دہلی) میں ہے:
’’قال أبو حنیفۃ: المظاھر إذا جامع امرأتہ في خلال الإطعام لا یستأنف الإطعام، لأن
|