کتاب سے کھیلا جاتا ہے؟‘‘ حتی کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا: اے الله کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں اسے قتل نہ کر دوں ؟]
حکم ایک ہی طلاق کا رکھتا ہے، جیسا کہ صحیح مسلم (۱/ ۲۷۷ چھاپہ دہلی) میں ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
’’قال: کان الطلاق علی عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وأبي بکر و سنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر کانت لھم فیہ أناۃ فلو أمضیناہ علیھم فأمضاہ علیھم‘‘[1]
[راوی کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ اس معاملے (طلاق) میں ، جس میں انھیں مہلت حاصل تھی، جلدی کرنے لگے ہیں ، اگر ہم (ان کی تین طلاقوں کو، تین طلاقیں ہی) ان پر نافذ کر دیں (تو بہتر ہے) چنانچہ انھوں نے اس کو نافذ کر دیا]
پس اگر ڈیڑھ مہینے میں تین حیض سے اس عورت کو فراغت ہوچکی تھی، تب شوہر اس کا اسے اپنے گھر لے آیا تو بے شک یہ فعل ناجائز ہوا۔ اب یہی شکل دونوں کے ملنے کی ہے کہ نکاح کرایا جائے اور اگر قبل تین حیض سے فراغت کرنے کے شوہر اس عورت کو لے آیا، وہ بے شبہہ رجعتِ صحیحہ ہے۔ ہدایہ (ص: ۳۷۵ مصطفائی) میں ہے:
’’والرجعۃ أن یقول: راجعتک أو راجعت امرأتي، وھذا صریح في الرجعۃ، ولا خلاف فیہ بین الأئمۃ۔ قال: أو یطأھا، أو یقبلھا، أو یلمسھا بشھوۃ، أو ینظر إلی فرجھا بشھوۃ‘‘[2]
[رجوع یہ ہے کہ وہ (رجوع کرنے والا) کہے: میں نے تجھ سے رجوع کیا یا میں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ رجوع کے یہ الفاظ صریح ہیں ، ائمہ کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: (رجوع اس طرح بھی ہوجاتا ہے کہ وہ) اس (اپنی مطلقہ بیوی) سے وطی کر لے یا اسے بوسہ دے یا شہوت کے ساتھ اسے چھوئے یا شہوت کے ساتھ اس کی شرم گاہ کو دیکھے]
کتبہ: أضعف عباد الرحمن أبو عبد المنان محمد سلیمان، غفرلہ السبحان۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔
کیا دو مہینے میں تین طلاقیں دے کر رجوع ہو سکتا ہے؟
سوال: ایک شخص نے اپنی بی بی کو دو مہینے کے عرصے میں تین طلاق دے دیا، اس قصور پر کہ بی بی نماز نہیں پڑھتی ہے اور اب بعد طلاق کے بی بی بہت عاجزی کرتی ہے کہ ہمارا قصور معاف کرو، ہم نماز پڑھتی ہیں اور میاں بھی چاہتا ہے
|