تو انھوں نے عید کے لیے نکلنے میں دیر کر دی، حتی کہ دن (کافی) اونچا ہوگیا، پھر وہ نکلے اور خطبہ دیا، پھر اترے اور عید کی نماز پڑھائی اور اس دن لوگوں کو جمعہ نہیں پڑھایا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بات ذکر کی گئی تو انھوں نے فرمایا: انھوں نے سنت پر عمل کیا]
رواہ النسائي، و أبو داود بنحوہ، لکن من روایۃ عطاء، و لأبي داود أیضاً عن عطاء قال: اجتمع یوم الجمعۃ ویوم الفطر علیٰ عھد ابن الزبیر فقال: عیدان اجتمعا في یوم واحد فجمعھما جمیعا فصلاھما رکعتین بکرۃ، لم یزد علیھما حتی صلیٰ العصر )) [1]
(منتقیٰ الأخبار، مطبوعہ فاروقی، ص: ۱۰۴)
[نسائی اور ابو داود نے اسی طرح روایت کیا ہے، لیکن عطا کی روایت سے۔ ابو دادو میں بھی عطا کے واسطے سے ہے، انھوں نے بیان کیا کہ عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہما کے دورِ (خلافت) میں جمعے کا دن اور عید الفطر کا دن اکٹھے ہوگئے تو انھوں نے کہا کہ دو عیدیں (جمعہ اور عید) ایک ہی دن میں اکٹھی ہوگئی ہیں ۔ پھر انھوں نے ان دونوں کو جمع کر دیا اور پہلے پہر دو رکعتیں پڑھائیں ، اس پر کچھ اضافہ نہ کیا، حتی کہ عصر پڑھی]
کتبہ: محمد سلیمان۔ غفرلہ المنان۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: أبو محمد إبراہیم۔
احناف کے پیچھے نمازِ عید پڑھنا:
سوال: 1۔ایک شہر کی عید گاہ میں تمام شہر اور دیہات کے حنفی مسلمان نمازِ عید کے واسطے جمع ہوتے ہیں اور امام بھی حنفی ہے۔ یہ لوگ جماعتِ اہل حدیث کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل ہو کر پڑھنے اور عیدگاہ میں آنے سے منع نہیں کرتے اور روکتے بھی نہیں ہیں ، بلکہ اپنے ساتھ شامل ہو کر نماز پڑھنے کی خوشی سے اجازت دیتے اور مسلمانوں کی جماعت بڑھانے کے واسطے ان کو بلاتے ہیں ، تو اس صورت میں اہلِ حدیث کو جماعت حنفیہ کے ساتھ شامل ہو کر عیدگاہ میں ان کے مقتدی بن کر نماز عید پڑھنی جائز ہے یا نہیں ؟
2۔ اگر جائز ہے تو اہلِ حدیث بارہ تکبیریں قبل قراء ت کہنے کے قائل و عامل ہیں اور حنفیہ چھ کے بعد قراء ت قبل الرکوع کے، تو اس صورت میں اہلِ حدیث اپنی تکبیریں کتنی اور کس جگہ کہیں ؟
3۔ اگر یہ لوگ ان کے ہمراہ شامل ہو کر نماز نہ پڑھیں ، بلکہ دس بیس پچاس آدمی علیحدہ ہو کر نمازِ عید ادا کریں تو ان پر کچھ شرعی الزام و وعید ہے یا نہیں ؟
جواب: اس صورت میں اہلِحدیث کو جماعت حنفیہ کے ساتھ شامل ہو کر عیدگاہ میں ان کے مقتدی بن کر نمازِ عید
|