والدہ نے اپنا عقد کیا اور نہ وہ اپنی والدہ سے علیحدہ ہوا، بلکہ نفسانیت اور والدہ کے بہکانے کی وجہ سے ایک اور عقد کر لیا۔ اب زید کی لڑکی تخمیناً چار سال سے زید کے گھر میں ہے اور خالد دوسری بی بی کے ساتھ رہتا ہے اور اسی کے نان و نفقہ کا کفیل ہے۔ زید کی لڑکی کا بار باپ کے سر ہے۔ ایسی حالت میں زید کو کیا کرنا چاہیے؟
السائل: عبدالرحمن۔ دیدار بخش بازار سوت ہٹی۔ متصل کوتوالی۔ فرخ آباد
جواب: زید نے جو اپنی لڑکی کا عقد خالد کے ساتھ کر دیا، اگر خالد یا وہ لڑکی یا دونوں عقد کے وقت نابالغ تھے تو عقد مذکورہ دو وجہ سے صحیح نہیں ہوا۔ اولاً اس وجہ سے کہ نکاح کی عمر سن بلوغ ہے اور یہ نکاح سن بلوغ سے قبل ہوا۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی۔ٓ اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ﴾ [سورہ النساء، رکوع ۱] یعنی یتیم بچوں کو آزماتے رہو، یہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمر تک پہنچیں ۔ ظاہر ہے کہ نکاح کی عمر سن بلوغ کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔ ثانیاً اس وجہ سے کہ عورت کا نکاح اس کے اذن کے بغیر ناجائز ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لا تنکح البکر حتی تستأذن، ولا تنکح الأیم حتی تستأمر ))[1]الحدیث
(متفق علیہ، مشکوۃ شریف، باب الولي والاستیذان)
یعنی کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے، جب تک کہ اس سے اذن نہ لیا جائے اور بیوہ عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے حکم نہ لیا جائے۔
حالت نابالغی کا اذن شرعاً نامعتبر ہے۔ پس ثابت ہوا کہ عقد مذکور صحیح نہ ہوا اور جب ثابت ہوا کہ عقد مذکور صحیح نہیں ہوا تو ایسی حالت میں اس لڑکی کا دوسرا عقد کر دیا جائے اپنے ضلع کے صاحب جج سے اجازت لے کر، اگر وہ لڑکی سن بلوغ کو پہنچ چکی ہو۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۳؍ صفر ۱۳۳۵ھ)
عدت کے اندر نکاح کرنے کا حکم:
سوال: ایک عورت بلا طلاق اپنے شوہر کو چھوڑ کر غیر آدمی کے پاس چار برس تک رہی۔ وہاں پر ایک لڑکا بھی تولد ہوا، بعد اس کے وہ شخص جس کے پاس وہ عورت تھی، اس نے اس کے شوہر کو ایک سو روپیہ دے کر خلع کر کے فوراً بلا عدت اس سے نکاح پڑھوا لیا۔ موافق شرع شریف کے وہ نکاح جائز ہے یا نہیں اور خلع میں عدت شرط ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو کتنے روز؟
جواب: موافق شرع شریف کے وہ نکاح جائز نہیں ، اس لیے کہ وہ نکاح عدت کے اندر ہوا اور ایسا نکاح جائز نہیں اور خلع میں عدت شرط ہے اور وہ ایک حیض ہے۔
في المنتقی عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما أن امرأۃ ثابت بن قیس اختلعت من زوجھا فأمرھا النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أن تعتد بحیضۃ۔[2] و اللّٰه أعلم بالصواب۔
(رواہ أبو داود والترمذي وقال: حدیث حسن غریب)
|