کذا في خزانۃ المفتین"[1]
[جب مسجد ویران ہوجائے اور وہاں رہنے والے اس سے بے نیاز ہوجائیں کہ وہاں نماز بھی نہیں پڑھی جاتی تو وہ اس کو وقف کرنے والے یا اس کے ورثا کی دوبارہ ملکیت بن جائے گی، حتی کہ ان کے لیے اسے بیچنا یا اسے گھر بنانا جائز ہوگا، لیکن ایک قول کے مطابق وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہی رہے گی اور یہی زیادہ صحیح ہے، جیسا کہ "خزانۃ المفتین" میں ہے]
در مختار میں ہے:
"(ولو خرب ما حولہ، واستغنیٰ عنہ، یبقی مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلیٰ قیام الساعۃ (وبہ یفتیٰ) حاوی القدسي" انتھی[2]
[اگر اس (مسجد) کے اردگرد ویران ہوجائے اور اس سے مستغنی ہو جائیں تو وہ امام اور دوم کے نزدیک ہمیشہ قیامت تک مسجد ہی رہے گی اور اسی پر فتویٰ ہے]
’’رد المحتار‘‘ (۳/ ۵۱۳) میں ہے:
"(قولہ: ولو خرب ما حولہ) أي ولو مع بقاۂ عامرا، وکذا لو خرب، ولیس لہ ما یعمر بہ، وقد استغنی الناس عنہ لبناء مسجد آخر، (قولہ: عند الإمام والثاني) فلا یعود میراثا، ولا یجوز نقلہ، ونقل مالہ إلی مسجد آخر، سواء کانوا یصلون فیہ أو لا، وھو الفتوی حاوی القدسي، وأکثر المشائخ علیہ، مجتبی، وھو الأوجہ‘‘ فتح اھا بحر" و اللّٰه تعالیٰ أعلم
[اس کے قول ’’اگر اس کے اردگرد کا علاقہ ویران ہوجائے‘‘ کا مطلب ہے کہ اگرچہ وہ (مسجد) اس ویرانی کے باوجود آباد رہے۔ اسی طرح اگر وہ ویران ہوجائے اور مسجد کو آباد کرنے کی کوئی صورت بھی نہ ہو اور کسی دوسری مسجد کے بننے کی و جہ سے لوگ اس سے بے پروا ہوجائیں ۔ اس کا قول ’’امام اور دوم کے نزدیک‘‘ چنانچہ وہ دوبارہ میراث بنے گی نہ اس کو نقل کرنا ہی جائز ہے اور نہ اس کے مال کو کسی دوسری مسجد کی طرف منتقل کرنا درست ہے، خواہ وہ اس میں نماز پڑھیں یا نہیں اور یہی فتویٰ ہے۔ اسی پر اکثر مشائخ ہیں ۔ اور یہی زیادہ قوی ہے] اَملاہ: محمد عبد الرحمن، عفا اللّٰه تعالیٰ عنہ۔
ایک مسجد کی اشیا کو فروخت کر کے دوسری مسجد پر خرچ کرنا:
سوال: ہمارے یہاں کی مسجد سفالہ پوش ہے، ارادہ ہے کہ اس کے کل سامان کو فروخت کر کے مسجد کو پختہ پلاسٹر کر دیا جائے یا دوسری مسجد پر اس کا سامان دے دیا جائے کہ وہ مسجد تیار ہوجائے۔ دونوں صورتوں میں کون سی جائز ہے اور
|