جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اسلام کے اصول جلی ہیں ، اس کے دلائل اجمالاً واضح ہیں ، اسی لیے ان کی ٹوہ نہیں لگائی جاتی۔ برخلاف ان مسائل کے جن میں اختلاف ہوا ہے، کیونکہ وہ ظہور میں ان مسائل کی طرح نہیں ہیں ، بلکہ ان میں سے اکثر وہ ہیں کہ جو کتاب و سنت میں وارد ہوا ہے، اس کو مبطل اس کے معارض و مخالف نہیں سمجھتا، جس سے حق گو دلیل پکڑتا ہے، ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تاویل جو اس کے مذہب کے مطابق ہے، وہی اولیٰ ہے۔ پس اس کو یہ مقام دینا ممکن نہیں ہے، جس پر اسلام کا صحیح ہونا موقوف ہو، پس کسی کو کافر قرار دینے میں کوئی اقدام کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں بہت بڑا خطرہ ہے] و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ)۔ الجواب صحیح عندي، و اللّٰه أعلم بالصواب۔ محمد ضمیر الحق، عفي عنہ۔ أصاب من أجاب۔ وصیت علی۔ الجواب صحیح عندي، و اللّٰه أعلم الصواب۔ أبو محمد إبراہیم۔ الجواب صحیح۔ أبو العلیٰ محمد عبدالرحمن، عفي عنہ۔
بیٹے کی زنا شدہ عورت سے نکاح کا حکم:
سوال: اگر کوئی شخص اپنے فرزند حقیقی کی مزنیہ سے نکاح کرے تو یہ نکاح جائز ہوگا یا نہیں ؟
جواب: اس مسئلے میں فیما بین العلماء اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ نکاح ناجائز ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک جائز۔ اس اختلاف کا منشا یہ ہے کہ جہاں پر قرآن مجید میں محرمات عورتوں کا بیان ہے اور بعد بیان محرمات یہ فرمایا ہے کہ ان کے سوا اور جو عورتیں ہیں ، وہ حلال ہیں ، اس جگہ اس مسئلے کے متعلق یہ فرمایا ہے:
﴿ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ﴾ [النساء: ۲۳]
’’تمہارے صلب، یعنی حقیقی فرزندوں کی حلائل تم پر حرام کی گئیں ۔‘‘
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حلائل حلیلہ کی جمع ہے اور حلیلہ کے معنی زوجہ کے ہیں ۔ قاموس میں ہے: ’’حلیلتک: امرأتک‘‘ اھ[1] [یعنی تمھاری ’’حلیلہ‘‘ سے مراد تمھاری بیوی ہے] ’’مجمع البحار‘‘ میں ہے: ’’وفیہ أن تزاني حلیلۃ جارک أي امرأتہ، والرجل حلیلھا‘‘ اھ [اور اس میں ہے کہ تو اپنے پڑوسی کی حلیلہ، یعنی اس کی بیوی سے زنا کرے اور مرد اس کا حلیل ( شوہر ہوتا) ہے] منتخب اللغات میں ہے: ’’حلائل زنان نکاحی، جمع حلیلہ است‘‘اھ [حلائل حلیلہ کی جمع ہے اور یہ منکوحہ عورتوں کو کہتے ہیں ] غیاث اللغات میں ہے: ’’حلیلہ زن منکوحہ‘‘ اھ [حلیلہ منکوحہ عورت کا نام ہے]
جب ’’حلیلہ‘‘ کے معنی ’’زوجہ‘‘ کے ہیں اور مزنیہ زوجہ نہیں ہے، تو آیتِ کریمہ سے صرف حقیقی فرزندوں کی زوجات کی حرمت ثابت ہوئی، نہ ان کی مزنیات کی بھی اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ حلیلہ کے معنی زوجہ
|