ونقشہ: محمد رسول اللّٰه ‘‘[1]
[انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روم (کے بادشاہ) کی طرف خط لکھنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو) بتایا کہ وہ (رومی بادشاہ وغیرہ) مہر زدہ خط ہی قبول کرتے اور پڑھتے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی (مہر) بنوائی، گویا کہ میں اس کی چمک کو (ابھی بھی) دیکھ رہا ہوں ، اس انگوٹھی پر یہ نقش تھا: ’’محمد رسول اللّٰه ‘‘]
اسی صفحہ میں ہے:
’’وقد کتب النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم إلیٰ أھل خیبر: إما أن تدوا صاحبکم، وإما أن تؤذنوا بحرب‘‘[2]
[نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خیبر کو خط لکھا کہ یا تو اپنے ساتھی کی دیت ادا کرو یا لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ]
اسی طرح اخبار سماعی اگر موثوق بہا ہوں ، یعنی وہ ثقات کی خبریں ہوں تو قابلِ حجت ہیں ۔ کما حقق في الأصول، و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کیا رؤیتِ ہلال وغیرہ میں برقی تار کی خبر معتبر ہے؟
سوال: امورِ شرعیہ مثل رویتِ ہلال، طلاق، عتاق، ہبہ ، عطیہ، بیع و شراء وغیرہ میں تار برقی کی خبر معتبر ہے یا نہیں ؟
المستفتی: مولوی ضیاء الرحمن۔ کولو ٹولہ رتو سرکار لین نمبر ۶ کلکتہ
جواب: چونکہ تار برقی کی خبر من جملہ اخبار ہے، لہٰذا امورِ شرعیہ میں اس کے معتبر یا نا معتبر ہونے کے بھی وہی شرائط ہیں ، جو عام اخبار کے شرائط ہیں ۔ امورِ شرعیہ میں خبر متواتر تو علی الاطلاق معتبر ہے، اس کے راوی کیسے ہی ہوں ، اس کے راویوں کے حالات کی تفتیش کی کہ وہ ثقہ ہیں یا نہیں ، کچھ ضرورت نہیں ہے۔ رہی خبر غیر متواتر یعنی خبرِ آحاد سو خبرِ آحاد کے معتبر ہونے کی یہ شرط ہے کہ اس خبر کی راستی اور سچائی کسی طریق سے ثبوت کو پہنچ جائے کہ اس خبر کے راوی ثقہ ہیں ، خواہ اس طریق سے کہ وہاں ایسے قرائن موجود ہیں ، جو اس خبر کی راستی اور سچائی کو ظاہر کر رہے ہیں ۔
واضح ہو کہ ہر ایک تار کی خبر میں کم از کم غالباً تین راوی ضرور ہوتے ہیں ، جن کے حالات کی تفتیش کہ وہ ثقہ ہیں یا نہیں ؟ ایک نہایت ضروری امر ہے، بشرطیکہ وہ خبر متواتر نہ ہو یا وہاں ایسے قرائن موجود نہ ہوں ، جو اس خبر کی راستی اور سچائی پر دلالت کرتے ہوں ۔
1۔ وہ تار بابو جو خبر بھیجتا ہے۔
2۔ وہ تار بابو جس کے پاس بابو نمبر(۱) خبر بھیجتا ہے۔
3۔ وہ شخص جو بابو نمبر (۱) سے خبر بھیجنے کی استدعا کرتا ہے اور کبھی کبھی یہ استدعا بواسطہ ہوتی ہے تو ایسی حالت میں نمبر
|