[طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان پر باجماعت جمعہ ادا کرنا فرض ہے، سوائے چار کے: مملوک غلام، عورت، بچہ اور بیمار]
صحیح بخاری (۱/ ۱۰۳ طبع مصری) میں ہے:
’’عن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قالت: کان الناس ینتابون یوم الجمعۃ من منازلھم والعوالي فیأتون في الغبار‘‘[1]الحدیث، و اللّٰه تعالیٰ أعلم
[ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ لوگ اپنے ڈیروں اور بالائے مدینہ (عوالی) سے جمعے کے لیے آیا کرتے تھے، چنانچہ وہ گرد و غبار میں چلتے ہوئے آتے] کتبہ: محمد عبد الله (۳۰؍جمادی الاولیٰ ۱۳۳۲ھ)
خطبہ جمعہ میں وعظ و نصیحت واجب ہے یا نہیں ؟
سوال: خطبہ جمعہ میں وعظ و نصیحت واجب ہے یا نہیں ؟
جواب: خطبہ میں وعظ و نصیحت واجب ہے، اس لیے کہ اصل مقصود خطبے سے وعظ و نصیحت ہے،نیز وعظ و نصیحت روحِ خطبہ ہے اور حمد و صلاۃ آدابِ خطبہ سے ہے، نہ کہ اصل خطبہ سے، لفظِ حدیث ’’ویذکر الناس‘‘ جو دربابِ خطبہ مروی ہے، وجوبِ مذکور کی ایک کافی دلیل ہے۔
’’دلیل الطالب‘‘ (۱/ ۳۷۴ و ۳۲۵) تصنیف نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی عبارت مندرجہ قابلِ ملاحظہ ہے:
’’اعلم أن الخطبۃ المشروعۃ ھي ما کان یعتادہ صلی اللّٰه علیہ وسلم من ترغیب الناس وترھیبھم، فھذا في الحقیقۃ ھو روح الخطبۃ الذي لأجلہ شرعت، وأما اشتراط الحمد ﷲ، والصلاۃ علی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أو قراء ۃ شییٔ من القرآن فجمیعہ خارج عن معظم المقصود من شرعیۃ الخطبۃ، واتفاق مثل ذلک في خطبتہ صلی اللّٰه علیہ وسلم لا یدل علی أنہ مقصود متحتم وشرط لازم، ولا یشک منصف أن معظم المقصود ھو الوعظ دون ما یقع قبلہ من الحمد والصلاۃ علیہ صلی اللّٰه علیہ وسلم ، وقد کان عرف العرب المستمر أن أحدھم إذا أراد أن یقوم مقاما ویقول مقالا، شرع بالثناء علی اللّٰه وعلیٰ رسولہ، وما أحسن ھذا وأولاہ، ولکن لیس ھو المقصود بل المقصود ما بعدہ، ولو قال قائل: إن من قام في محفل من المحافل خطیبا لیس لہ باعث علیٰ ذلک إلا أن یصدر منہ الحمد والصلاۃ لما کان ھذا مقبولا، بل کل طبع سلیم یمجہ ویردہ، وإذا تقرر ھذا عرضت أن الوعظ في خطبۃ الجمعۃ ھو الذي یساق إلیہ الحدیث، فإذا فعلہ الخطیب فقد فعل الأمر المشروع إلا أنہ إذا قدم الثناء علی اللّٰه وعلیٰ رسولہ
|