المحدثون بالصحۃ، ولا مما اتفق علیہ جمھور أھل القرون الأولیٰ، وعلٰی تقدیر صحتھا یمکن أن یکون ذلک تطییبا للقلوب، وتنظیفا للماء، لا من جھۃ الوجوب الشرعي، کما ذکر في کتب المالکیۃ، ودون نفي ھذا الاحتمال خرط الفتاد، وبالجملۃ فلیس في ھذا الباب شییٔ یعتد بہ، ویجب العمل علیہ، وحدیث القلتین أثبت من ذلک کلہ بغیر شبھۃ، ومن المحال أن یکون اللّٰه تعالیٰ شرع في المسائل [لعبادہ شیئازیادۃ]علٰی مالاینفکون عنہ من الارتفاقات،وھماممایکثروقوعہ،وتعم بہ البلویٰ،ثم لاینص علیہ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم نصا جلیا،ولا یستفیض في الصحابۃ ومن بعدھم، ولا حدیث واحد فیہ‘‘ و اللّٰه تعالیٰ أعلم"[1]
[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جب پانی دو قلے ہو تو وہ گندگی نہیں اٹھاتا۔ آبِ کثیر اور آبِ قلیل کے درمیان قلتین کو ایک ضروری امر کی وجہ سے حد فاصل ٹھہرایا ہے، کسی زبردستی یا اٹکل کے سبب یہ حد بندی نہیں کی اور تمام مقادیر شرعیہ کا یہی حال ہے کہ کسی کے اندر بھی زبردستی اور اٹکل کا دخل نہیں ہے۔ پھر لوگوں نے کنویں کے اندر جاندار کے مر جانے، دہ در دہ اور بہنے والے پانی کے متعلق بہت زیادہ جزئی مسائل نکال لیے، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سب مسائل کے متعلق قطعاً احادیث مروی نہیں ہیں ، البتہ جو آثار صحابہ کرام سے، مثلاً: ابن زبیر سے زنگی کے متعلق، علی رضی اللہ عنہ سے چوہیا کے بارے میں اور نخعی اور شعبی سے بلی جیسے جانور کے متعلق مروی ہیں ، ان کے متعلق محدثین نے صحت کی گواہی دی ہے نہ قرونِ اولیٰ کے جمہور کا ان پر اتفاق ہے۔ اگر وہ آثار صحیح بھی ہوں تو ممکن ہے کہ وجوبِ شرعی کے طور پر نہیں ، بلکہ لوگوں کے دل مطمئن کرنے اور پانی کی نظافت کے لیے ہوں ، جیسا کہ کتبِ مالکیہ میں مذکور ہے۔ اگر یہ احتمال صحیح نہیں ہے تو اس میں سخت دقت ہے۔ المختصر اس باب میں کوئی قابلِ اعتماد اور واجب العمل شَے نہیں ہے اور حدیثِ قلتین بلاشبہ ان سب سے زیادہ ثابت ہے۔ نیز یہ امر محال ہے کہ الله تعالیٰ نے ان مسائل میں اپنے بندوں کے لیے ان تدابیر کے اوپر جو ان کے اوپر لازم ہیں ، کچھ بڑھایا ہو اور باوجود ان چیزوں کے کثرتِ وقوع اور عمومِ بلوی کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی واضح حکم نہ دیا ہو اور صحابہ کرام میں وہ معروف نہ ہوا ہو اور اس بارے میں ایک بھی حدیث نہ ہو] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۸؍ شعبان ۱۳۳۲ھ)
کیا حقے کا پانی پاک ہے؟
سوال: حقے کا پانی پاک ہے یا ناپاک؟
جواب: حقے کا پانی بے شک نجس ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ جاری پانی میں اگر نشے کی چیز یا مردار مل کر اس کے اوصاف
|