تحفۃ المحتاج میں ہے: زمین کو کاشت کرنے والے پر خراج اور زکات کی اجرت ہے، ان دونوں کا وجوب زکات کو ساقط نہیں کرتا ہے، کیونکہ دونوں کی جہت مختلف ہے۔ ان دونوں کے اجتماع کے لیے خبرِنافی اجماعاً ضعیف، بلکہ باطل ہے۔ وہ اس زمین کی پیداوار سے دونوں کو ادا کرے گا نہ سارے کی زکات نکالنے کے بعد۔ ’’المجموع‘‘ میں ہے: اگر وہ خراجی زمین کرائے پر لے تو اس کا خراج مالک کے ذمے ہو گا۔ زمین کرائے پر دینے والے کے لیے اس کی پیداوار سے، اس کی زکات ادا کرنے سے پہلے، اس کا کرایہ لینا حلال نہیں ہے۔ پس اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ زکات کی مقدار کا مالک نہیں بنے گا۔ اس کے ہاتھ میں جو پیداوار ہو گی اس سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ لیا جائے گا۔ جس طرح وہ اگر ایسی زکات والی زمین خرید لے جس کی زکات نہیں نکالی گئی]
صدقہ فطر ہر شخص پر فرض ہے:
سوال: کتاب ’’ہدایۃ الإسلام‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صدقہ عید الفطر اپنی جورو کی طرف سے ایک ہو یا چار ہوں اور بڑے لڑکے اور چھوٹے دولت مند لڑکے کی طرف سے مالک مکان پر واجب نہیں ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ السائل: ابو محمد اکبر خان ڈاکٹر، از دار جلنگ
جواب: حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ جورو کا صدقہ فطر شوہر پر واجب ہے، جیسا کہ امام مالک و امام شافعی و امام احمد بن حنبل و بعض دیگر ائمہ کا مذہب ہے۔ فتح الباری (ص: ۶۱ چھاپہ دہلی) میں ہے: ’’قال مالک والشافعي واللیث وأحمد وإسحاق: تجب (صدقۃ الفطر) علیٰ زوجھا‘‘ [امام مالک، شافعی، لیث، احمد اور اسحاق رحمہم اللہ ہیں کہ (عورت کا) صدقہ فطر اس کے خاوند کے ذمے واجب ہے] اسی طرح جن لوگوں کا خرچ جس شخص پر واجب ہے، ان کا صدقہ فطر بھی اسی شخص پر واجب ہے۔ حدیث مذکور یہ ہے:
’’عن نافع عن ابن عمر قال: فرض رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم زکاۃ الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعیر عن العبد والحر والذکر والأنثیٰ والصغیر والکبیر من المسلمین‘‘
(سنن دارقطني، ص: ۲۰۰)
[نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ہر غلام و آزاد، مرد و عورت اور چھوٹے اور بڑے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقہ فطر فرض فرمایا]
اسی صفحہ میں اثر ذیل بھی ہے، جو حدیث مذکور کا موید ہے:
’’عن ابن عمر أنہ کان یعطي صدقۃ الفطر عن جمیع أھلہ صغیرھم وکبیرھم ممن یعول وعن رقیقہ و عن رقیق نسائہ‘‘[1]
[عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ اپنے پروردہ افرادِ خانہ خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سب کی
|