کو نہیں دیا تو وہ روپیہ مظہر علی کی ملک میں نہیں آیا، اس لیے اس روپیہ میں مظہر علی کے کسی وارث کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: أبو العلیٰ محمد عبد الرحمن المبارکفوري، عفا اللّٰه عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔
منہ بولا بیٹا اور بیٹی وراثت کے حق دار نہیں :
سوال: زید پانچ بھائی زمیندار ہے، مگر بوجہ نا اتفاقی برادران دو بھائی اپنا اپنا حصہ زمینداری جدا کر کے اپنے اپنے اہل و عیال کے نان نفقہ کے مختار ہوئے اور تین بھائی شراکت میں زمینداری اور نان و نفقہ میں اہل و عیال کے متفق ہیں ۔ اتفاقاً قضائے الٰہی سے چھوٹا بھائی شریک دار زید لا ولد نے انتقال کیا، اب بعد وفات برادر مذکور کے بی بی ثیبہ شریکہ نے شوہر متوفی کے بڑے بھائی جدا کردہ کے لڑکے کو پتکر بنایا، یعنی اپنی جگہ زمینداری پر جانشین کیا، بعدہ چند عرصہ گزرا کہ بیوہ مذکورہ اپنی لڑکیوں کی پرورش میں مصروف ہوئی، اب لڑکا پتکر کردہ ارادہ کرتا ہے کہ اپنی جانشینی وراثت عمویان شریک سے جدا کر کے اپنے تصرف میں لائے اور عمویان مذکور اور بیوہ شریکہ منکر ہے، اس صورت میں لڑکا جانشین حق حصہ عموی متوفی کا رکھتا ہے یا نہیں ؟ اگر رکھتا ہے تو آیات یا احادیث کی تحریر کے ساتھ بیان فرمائیے؟
جواب: جو لڑکا معلوم النسب ہے، یعنی یہ معلوم ہے کہ اس کا باپ فلاں شخص ہے، اس کو اگر کوئی شخص اپنا بیٹا کہہ دے تو اس سے وہ اس کا بیٹا ہو نہیں جاتا، وہ جس کا بیٹا ہے، اسی کا بیٹا باقی رہتا ہے۔
﴿ وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآئَکُمْ اَبْنَآئَکُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاھِکُمْ﴾ [سورۂ أحزاب، رکوع اول]
[اور نہ تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارے بیٹے بنایا ہے یہ تمھارا اپنے مونہوں سے کہنا ہے]
پس اس صورت میں لڑکا جانشین حق حصہ عموی متوفی کا نہیں رکھتا۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمود، عفي عنہ
سوال: قرآن و حدیث نبوی سے یہ فرمائیے کہ ایک شخص مر گیا اور اس کی بی بی موجود ہے۔ اس مرد نے ایک لڑکی دوسرے سے لے کر پرورش کیا تھا اور شادی وغیرہ بھی کر دیا اور وہ اپنے شوہر کے گھر ہے۔ آخر کو وہ مرد پرورندہ قضا کر گیا اور کچھ معیشت نہیں چھوڑا ہے، فقط مکان اور اسبابِ مکان وغیرہ ہے اور مکان اس زید کے ہیں ، وہ اس بی بی کے نام سے نوشتہ کر دیا ہے، اب بحمایت اُس لڑکی متبنیٰ کے اس کی طرف سے لوگ کہتے ہیں کہ نصف حصہ بی بی لے اور نصف اس لڑکی کو دینا ہوگا۔ لہٰذا خدمت مبارک میں آپ کی گزارش ہے کہ کیا حق اس متبنیٰ لڑکی کا ہوگا؟
جواب: اس صورت میں اس لڑکی کا اس شخص کے ترکہ میں ، جس سے اس کو پرورش کیا تھا، کچھ حق نہیں ہے۔ شرع شریف میں جو بیٹا اور بیٹی کا حق مقرر ہے، وہ اس بیٹا اور بیٹی کا حق مقرر ہے، جو اپنے صلبی بیٹی اور بیٹا ہوں ، نہ کہ ان کا جو صرف پروردہ اور متبنیٰ ہوں ۔ پروردہ اور متبنیٰ شرعاً اس شخص کے بیٹا اور بیٹی نہیں ہیں ، جس نے ان کو پالا اور متبنیٰ بنایا ہے۔ الله تعالیٰ سورہ احزاب رکوع (۱) میں فرماتا ہے:
|