Maktaba Wahhabi

381 - 728
اختلاف المطالع في الصوم لتعلق الخطاب عاما في الصوم بمطلق الرؤیۃ في حدیث: (( صوموا لرؤیتہ )) بخلاف الصلاۃ والحج والأضحیۃ وغیرھا مما لا یجدي نفعا، لأنہ قد تعلق الخطاب عاما في الصلاۃ والحج والأضحیۃ جمیعا بمطلق أوقاتھا، کوقت زوال الشمس لصلاۃ الظھر، ووقت صیرورۃ ظل کل شییٔ مثلہ لصلاۃ العصر، و وقت غیبوبۃ الشمس لصلاۃ المغرب، ووقت غیبوبۃ الشفق لصلاۃ العشاء، ووقت طلوع الفجر الصادق لصلاۃ الصبح، مثلا في حدیث جبرئیل الذي رواہ أحمد والنسائي والترمذي۔ وعن جابر بن عبد اللّٰه رضی اللّٰه عنہ والترمذي عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہ أیضاً، وکأشھر معلومات للحج في قولہ تعالیٰ:﴿اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ﴾ الآیۃ۔ کالوقت الذي بعد الفراغ عن صلاۃ عید الأضحیٰ للأضحیۃ في حدیث البراء قال: خطبنا النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم یوم النحر فقال: إن أول ما نبدأ بہ یومنا ھذا أن نصلي ثم نرجع … الحدیث رواہ الشیخان۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم [روزے، نماز، حج اور قربانی وغیرہ میں یہ فرق کہ روزے میں اختلافِ مطالع کو معتبر نہیں سمجھا گیا، کیونکہ حدیث: ((صوموا لرؤیتہ )) ’’اسے دیکھ کر روزہ رکھو۔‘‘ میں روزے کے متعلق مطلق رؤیت کا خطاب عام ہے بر خلاف نماز، حج اور قربانی وغیرہ کے تو یہ قطعاً نفع بخش نہیں ہے، کیونکہ نماز، حج اور قربانی تمام میں مطلق اوقات کے ساتھ حکمِ عام ہے، جیسے ظہر کی نماز کے لیے زوالِ شمس کا وقت، عصر کی نماز کے لیے ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہونے کا وقت، نمازِ مغرب کے لیے غروبِ آفتاب کا وقت، نمازِ عشا کے لیے شفق کے غروب ہونے کا وقت، صبح کی نماز کے لیے فجرِ صادق طلوع ہونے کا وقت۔ مثال کے طور پر جبریل علیہ السلام کی اس حدیث میں جسے احمد، نسائی اور ترمذی نے جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کیا ہے اور جیسے فرمانِ باری تعالیٰ:﴿اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ﴾ میں حج کے لیے معلوم مہینے اور جیسے قربانی کے لیے عید الاضحیٰ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد کا وقت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نحر والے دن خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس دن ہم سب سے پہلا کام یہ کریں گے کہ ہم نماز ادا کریں ، پھر ہم لوٹیں گے۔۔۔ الحدیث۔‘‘ اسے بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۴؍ ذی الحجۃ ۱۳۲۷ھ) رؤیتِ ہلال کتنے فاصلے تک معتبر ہو گی؟ سوال: رویتِ ہلال اگر ایک شہر میں ہو تو دیگر اہلِ امصار و بلاد کے لیے بھی اس کا اعتبار ہوگا یا خاص اسی اہلِ شہر کے لیے رویت معتبر ہوگی کہ جہاں رؤیت ہوئی، بصورت اول شہادت بذریعہ تار برقی و خطوط و اخبار قابلِ حجت ہوں گی یا نہیں اور
Flag Counter