الربح، لأنہ شرط یوجب انقطاع الشرکۃ فعساہ لا یخرج إلا قدر المسمی لأحدھما، ونظیرہ في المزارعۃ‘‘[1]انتھی
[ہدایہ کی کتاب الشرکہ میں ہے کہ جب دونوں میں سے ایک کے لیے نفع سے معلوم دراہم کی شرط لگائی جائے تو شرکت جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ ایسی شرط ہے جو انقطاعِ شرکت کو واجب کرتی ہے، اس لیے کہ شاید اس (شراکت والی تجارت) سے اتنا ہی نفع ہو، جتنا ان میں سے ایک کے لیے مختص کر دیا گیا ہے اور اسی طرح مزارعت میں ہوتا ہے]
(ہدایہ کتاب المزارعۃ): ’’ولا تصح المزارعۃ إلا أن یکون الخارج شائعا بینھما تحقیقا لمعنی الشرکۃ، فإن شرط لأحدھما قفزانا مسماۃ فھي باطلۃ، لأن بہ تنقطع الشرکۃ، لأن الأرض عساھا لا تخرج إلا ھذا القدر، وصار کاشتراط دراھم معدودۃ لأحدھما في المضاربۃ‘‘[2]انتھی
[ہدایہ کی کتاب المزارعہ میں ہے کہ مزارعت صحیح نہیں ہوتی مگر اس طور پر کہ پیداوار دونوں میں معروف ہو، تاکہ شرکت کے معنی متحقق ہوں ۔ پس اگر دونوں نے متفق ہو کر ایک کے لیے کچھ معلوم قفیز شرط لگائے تو مزارعت باطل ہے، کیونکہ ایسی شرط کے ساتھ شرکتِ پیداوار منقطع ہوجائے گی، اس لیے کہ شاید زمین کی پیداوار اسی قدر ہو اور یہ ایسا ہوگیا جیسے مضاربت میں کسی ایک کے لیے معدود درہموں کی شرط لگائی گئی]
(ہدایۃ کتاب المضاربۃ): ’’ومن شرطھا أن یکون الربح بینھما مشاعا لا یستحق أحدھما دراھم مسماۃ من الربح، لأن شرط ذلک یقطع الشرکۃ بینھما، ولا بد منھا کما في عقد الشرکۃ‘‘[3]انتھی و اللّٰه تعالیٰ أعلم
[ہدایہ کی کتاب المضاربہ میں ہے کہ مضاربت کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ نفع ان دونوں میں مشترک ہو، ان میں سے کوئی بھی نفع میں سے دراہمِ معلومہ کا مستحق نہ ہو، کیونکہ ایسی شرط لگانا دونوں میں شرکت کو قطع کر دیتا ہے، حالانکہ شرکت لازمی ہے، جیسا کہ عقدِ شرکت میں ہوتا ہے]
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۸؍ ربیع الأول ۱۳۲۷ھ)
مضاربت اور اس کی شروط:
سوال:1۔ کیا ایک ہی شخص مضارب اور رب المال بھی ہوسکتا ہے؟
|