زمین کا خراج اور زکات مالک اور کرایہ دار میں سے کس کے ذمے ہے؟
سوال: ما قولکم أیھا العلماء ۔رحمکم اللّٰه ۔ فیمن استأجر أرضا من مالکھا المسلم، إجارۃ أو مزارعۃ، ھل الزکاۃ علی العامل في الأرض، وھو المستأجر أو علی مالک الأرض، وھو المؤجر؟ وھل إذا کانت الأرض خراجیۃ، واشتراھا المسلم من الکافر الذي کان علیہ الخراج، ھل کان علیہ الخراج والزکاۃ معا أو لا؟ وھل ورد في سقوط الزکاۃ إذا کانت خراجیۃ، حدیث صحیح یحتج بہ أم لا؟ بینوا تؤجروا۔
[آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے زمین کے مسلمان مالک سے اجارے یا کھیتی باڑی کے لیے زمین کرائے پر لی۔ اس زمین کی زکات زمین کرائے پر لینے اور اس میں کاشت کاری کرنے والے پر ہو گی یا کرائے پر دینے والے مالک کے ذمے ہو گی؟ نیز جب کوئی مسلمان کسی کافر سے ایسی خراجی زمین خرید لے جس پر وہ (کافر) خراج ادا کرتا تھا، کیا اب اس خریدار مسلمان پر خراج اور زکات دونوں واجب ہوں گے یا نہیں ؟ کیا خراجی زمین سے زکات کے ساقط ہونے کی کوئی ایسی صحیح حدیث وارد ہوئی ہے جس سے حجت پکڑی جا سکے یا نہیں ؟]
جواب: و اللّٰه الموفق لإصابۃ الصواب۔ اعلم أن العشر ثبت بالکتاب والسنۃ والإجماع والمعقول۔
أما الکتاب فقال اللّٰه تعالیٰ:﴿وَ اٰتُوْاحَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ﴾ فإن عامۃ المفسرین علی أنہ العشر، وھو مجمل بینہ قولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( ما سقت السماء ففیہ العشر، وما سقي بغرب أو دالیۃ ففیہ نصف العشر )) [1] ولأن العشر یجب في الخارج، لا في الأرض، فکان ملک الأرض وعدمہ سواء۔ انتھی، کذا في رد المحتار علی الدر المختار للعلامۃ الشامی رحمہ۔[2]
فظاھر القرآن والحدیث أن الزکاۃ تتعلق بمن نبت الزرع في ملکہ، فمن استخرج فوائد الأرض فعلیہ الزکاۃ، سواء کان الزارع المالک أو المستأجر أو المستعیر أو غیر ذلک، قال في الدر المختار: العشر علی المؤجر، وعندھما علی المستأجر، قال في الحاوي: وبقولھما نأخذ۔[3] انتھی
قال في فتح القدیر: إن العشر منوط بالخارج، وھو للمستأجر علیہ۔[4] انتھی وفي فتاویٰ شیخ الإسلام ابن تیمیۃرحمہ اللہ:
|