اس سے زیادہ اَنسب صورت جو ہو، تحریر فرمایا جائے۔
جواب: صورت مسؤلہ میں مسجد مذکور کے سامان کا فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے اور عند الحنفیہ بقول مفتی بہ اس سامان کو دوسری مسجد پر دینا بھی جائز نہیں ہے، پس صورت مسؤلہ میں مسجد مذکور کے سامان کو اسی مسجد پر بغیر فروخت کے صَرف کرنا چاہیے اور اگر بروقت مسجد مذکور پر اس سامان کے صَرف کرنے کی ضرورت نہ ہو تو اس کو محفوظ رکھنا چاہیے اور جب کبھی ضرورت پیش آئے تو اس وقت اس پر صَرف کرنا چاہیے۔ اگر اس سامان کے ضائع و تلف ہونے کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں بقول بعض فقہائے حنفیہ اس سامان کا دوسری مسجد پر دے دینا جائز ہے اور ان بعض فقہائے حنفیہ کے اس قول کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے، جس میں اضاعتِ مال کی ممانعت آئی ہے۔[1] ہذا ما عندي، و اللّٰه تعالیٰ أعلم، وعلمہ أتم۔ اَملاہ: محمد عبدالرحمن، عفا اللّٰه تعالیٰ عنہ
اذان کے مسائل
اذان میں کلمہ تکبیر کیسے ادا کریں ؟
سوال: اذان میں لفظ ’’ الله أکبر الله أکبر‘‘ دونوں کو ایک ساتھ ہی کہنا چاہیے یا ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ کہنا چاہیے؟
جواب: اس بارے میں کوئی تصریح کسی حدیث میں میری نظر سے نہیں گزری ہے۔ ہاں ’’عون المعبود علیٰ سنن أبي داود‘‘ (۱/ ۱۸۹) میں ہے:
" اللّٰه أکبر اللّٰه أکبر۔ کلمۃ واحدۃ، ولھذا شرع جمع کل تکبیرتین في الأذان بنفس واحد کما ذکرہ النووي"انتھٰی
[ الله اکبر الله اکبر ایک ہی کلمہ ہے، اس لیے اذان میں دونوں تکبیروں کو ایک ہی سانس میں جمع کرنا مشروع کیا گیا ہے، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے]
امام نووی رحمہ اللہ کی عبارت شرح صحیح مسلم (۱/ ۱۶۴) میں یہ ہے:
"فإن قیل: قد قلتم: إن المختار الذي علیہ الجمھور أن الإقامۃ إحدی عشرۃ کلمۃ، منھا اللّٰه أکبر اللّٰه أکبر أولا وآخرا، وھذا تثنیۃ؟ فالجواب أن ھذا وإن کان صورۃ تثنیۃ، فھو بالنسبۃ إلی الأذان إفراد، ولھذا قال أصحابنا: یستحب للمؤذن أن یقول کل تکبیرتین بنفس واحد، یقول في أول الأذان: اللّٰه أکبر اللّٰه أکبر بنفس واحد، ثم یقول: اللّٰه أکبر اللّٰه أکبر بنفس آخر"[2] اھ۔
|