بھی اسی طرح طلاق پڑ جاتی ہے، جس طرح صریح طلاق سے، جب کہ کنایات کے ساتھ شوہر کی نیت طلاق دینے کی ہو یا دلالتِ حال (قرینہ حالیہ) موجود ہو۔ صورت مسؤلہ میں گو زید کی نیت کا حال معلوم نہیں ، ممکن ہے کہ اس کی نیت بھی ہو، لیکن دلالتِ حال (والدِ ہندہ کا سوال طلاق) ضرور موجود ہے، پس اس صورت میں ہندہ پر ضرور طلاق پڑ گئی۔ اب اگر اس طلاق کی عدت گزر چکی ہے یا ہندہ ہنوز زید کی مدخولہ ہی بعد نکاح کے نہیں ہوئی ہے، تو ہندہ ان دونوں صورتوں میں اپنا نکاح دوسرے شخص سے کر سکتی ہے۔ یا اگر زید و ہندہ پھر باہم نکاح پر راضی ہوجائیں تو دونوں پھر باہم نکاح کر سکتے ہیں ۔ اگر اس طلاق کی عدت نہ گزر چکی ہو اور ہندہ زید کی مدخولہ بعد نکاح کے ہوچکی ہو تو زید اس صورت میں رجعت کر سکتا ہے۔ اگر زید کی نیت اس رجعت سے ہندہ کو اچھی طرح رکھنے کی ہو، ستانے اور تنگ کرنے کی نہیں ۔
وقال تعالیٰ:﴿وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ [بقرۃ، ع: ۳۰]
[اور جب تم عورتوں کو طلاق دو، پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کر لیں ، جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہوجائیں ]
﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَھَا فَمَتِّعُوْھُنَّ وَ سَرِّحُوْھُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا﴾ [الأحزاب: ۴۹]
[اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو، پھر انھیں طلاق دے دو، اس سے پہلے کہ انھیں ہاتھ لگاؤ، تو تمھارے لیے ان پر کوئی عدت نہیں ، جسے تم شمار کرو، سو انھیں سامان دو اور انھیں چھوڑ دو، اچھے طریقے سے چھوڑنا]
وقال تعالیٰ:﴿وَ بُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ﴾ [البقرۃ: ۲۲۸] [اور ان کے خاوند اس مدت میں انھیں واپس لینے کے زیادہ حق دار ہیں ] وقال تعالیٰ:﴿وَ لَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا﴾ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ [اور انھیں تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو، تاکہ ان پر زیادتی کرو] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۱؍ ربیع الآخر ۱۳۳۵ھ)
اگر الفاظِ طلاق میں دو معانی کا احتمال ہو؟
سوال: زید نے سفر کا قصد کیا۔ ہندہ اس کی بی بی نے کہا کہ سفر میں مجھے ساتھ لے چلو یا طلاق دے دو۔ زید نے کہا کہ جب تم نے طلب طلاق کا کیا طلاق ہوگیا۔ یہ کہہ کر سفر پر چلا گیا۔ بعد چند برس کے ہندہ نے بذریعہ خط طلب خرچ کا کیا کہ یا مجھے خرچ بھیجیں یا طلاق دے دیجیے۔ زید نے جواب میں لکھا کہ جس وقت میں نے پہلے سفر کا قصد کیا تھا تو نے اسی وقت طلب طلاق کا کیا تھا، اسی وقت تجھ کو طلاق ہوچکا، پھر دوبارہ طلاق مانگنے اور خرچ بھیجنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس صورت میں طلاق واقع ہوا یا نہیں ؟ اس عورت کا نکاح دوسری جگہ جائز ہے یا نہیں ؟
|