احتجاج نہیں ہے،[1] ان سب امور کے دلائل کتاب و سنت میں موجود اور تحریراتِ اہلِ علم میں مسطور و شائع ہیں ۔ لہٰذا صرف ان امور کے ذکر پر اکتفا کیا گیا اور ذکرِ دلائل سے قطع نظر رکھا گیا۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه الغازیفوري
نہروں سے سیراب ہونے والی زمین کا عشر:
سوال: جو زمینیں نہروں سے سیراب ہوتی ہیں اور سرکار انگریزی پانی کا محصول لیتی ہے، آیا ان زمینوں میں عشر ہے یا نصف عشر؟
جواب: ان زمینوں میں عشر واجب ہے۔ صحیح بخاری میں ہے:
عن عبد اللّٰه بن عمر رضی اللّٰه عنہما عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( فیما سقت السماء والعیون أو کان عثریا العشر، و ما سقي بالنضح نصف العشر )) [2] اھ
[عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس (کھیت یا باغ) کو بارش یا چشموں کے پانی سے سیراب کیا جائے یا اس (کھیت یا باغ) کی زمین تر ہو تو اس (کی پیداوار) میں عشر (فرض) ہے اور جس (کھیت یا باغ) کو کھینچ کر پانی پلایا جائے تو اس میں نصف عشر ہے]
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں پیداوار اراضی کے باب میں دو ہی صورتیں رکھی گئی ہیں : عشر یا نصف عشر۔ عشر تو جب ہے کہ وہ اراضی بارش کے پانی سے یا چشموں کے پانی سے سیراب کی گئی ہوں یا وہ اراضی عثری ہوں ، اور نصف عشر جب کہ وہ اراضی بیل وغیرہ کے ذریعے سے پانی کھینچ کر سیراب کی گئی ہوں اور یہ معلوم ہے کہ چشموں کے پانی سے سیراب کرنے کی یہی صورت ہے کہ ان چشموں سے جداول کھدوا کر یا کھود کر اراضی مذکورہ کی طرف لے آئیں ، تاکہ ان کے ذریعے سے چشموں کا پانی اراضی مذکورہ میں پہنچ کر اراضی مذکورہ کو سیراب کرے اور جد اول اگر خود نہ کھودیں ، بلکہ مزدوروں سے کھدوائیں تو اس صورت میں کھدوائی ضرور دینی پڑے گی، مگر شارع نے اس صورت میں بھی عشر ہی واجب فرمایا ہے تو اس سے ظاہر ہوا کہ جب اراضی چشموں کے پانی سے سیراب کی جائیں تو اگرچہ اس میں کچھ خرچ بھی پڑے، تب بھی عشر ہی واجب ہوتا ہے اور جو زمینیں نہروں سے سیراب ہوتی ہیں اور سرکار انگریزی پانی کا محصول لیتی ہے، وہ محصول جداول کی کھدوائی سے زیادہ نہیں ہوتا ہے، لہٰذا اُن زمینوں میں بھی جو نہروں سے سیراب ہوتی ہیں اور سرکار انگریزی پانی کا محصول لیتی ہے، عشر واجب ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۲؍ شوال ۱۳۳۵ھ)
|