حسبِ فقہ حنفی جائز سمجھا جائے گا اور دوسرا ناجائز۔ پہلا نکاح جائز اس وجہ سے سمجھا جائے گا کہ حرہ مکلفہ کا نکاح، گو بلا ولی ہی کیوں نہ ہو، حسبِ فقہ حنفی نافذ سمجھا جاتا ہے:
’’نفذ نکاح حرۃ مکلفۃ بلا ولي عند أبي حنیفۃ في ظاھر الروایۃ‘‘
(فتاویٰ عالمگیریہ، طبع مصطفائي: ۲/ ۱۳)
[ظاہر الروایۃ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک حرہ مکلفہ کا نکاح بغیر ولی نافذ ہوگا]
دوسرا نکاح ناجائز اس وجہ سے سمجھا جائے گا کہ جب پہلا نکاح جائز سمجھا گیا تو وہ لڑکی شوہر دار ہوگئی اور شوہر دار عورت سے کسی کا نکاح جائز نہیں ہے۔ ’’لا یجوز للرجل أن یتزوج زوجۃ غیرہ‘‘ (فتاویٰ عالمگیریہ: ۲/ ۹) [کسی آدمی کے لیے کسی دوسرے کی بیوی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے] اور بھی جب لڑکی نے دوسرے نکاح سے اپنی ناراضی کا اظہار کر دیا تو دوسرا نکاح فسخ ہوگیا اور جب فسخ ہوگیا، اس کے بعد رضا مندی کا اظہار خواہ کسی وجہ سے ہو کچھ مفید نہیں ہوسکتا:
’’ولو زوجھا ولیھا، فقالت: لا أرضیٰ، ثم رضیت في المجلس، لم یجز، کذا في محیط السرخسي‘‘ (فتاویٰ عالمگیریہ:۲/۱۴)
[اگر عورت کے ولی نے اس کا نکاح کر دیا تو اس نے کہا: میں راضی نہیں ہوں ، پھر اسی مجلس میں وہ راضی بھی ہوجائے تو یہ نکاح جائز نہ ہوگا۔ سرخسی کی محیط میں بھی ایسے ہی ہے]
حسبِ حدیث شریف بھی یہی جواب ہے، بشرطیکہ ہر دو چچا، یعنی وہ چچا جس نے کہ لڑکی کا پہلا نکاح کر دیا اور وہ چچا جس نے کہ لڑکی کا دوسرا نکاح کر دیا، برابر کے ولی ہوں ۔
عن سمرۃ بن جندب أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( أیما امرأۃ زوجھا ولیان فھي للأول منھما )) [1] الحدیث (ترمذي: ۱/ ۱۴۱) و اللّٰه تعالیٰ أعلم
[سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو ولی کسی عورت کا نکاح کر دیں ، تو یہ ان میں سے پہلے والے کے لیے ہوگی] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۱؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۳۱ھ)
بارات کا کھانا اور دعوتِ ولیمہ:
سوال: داماد کو بعد فراغت شادی طعامِ ولیمہ کر نے کی لیاقت نہ ہو تو اس کا سسر داماد کے عوض طعامِ ولیمہ کر سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: اگر داماد کو دعوتِ ولیمہ کرنے کی استطاعت نہ ہو اور سسر صاحب کو استطاعت ہو اور چاہتا ہو کہ میرے خرچ سے داماد کی طرف سے دعوتِ ولیمہ ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ داماد کو دعوتِ ولیمہ کا خرچ دے دے، پھر داماد خود
|