[سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جو مال ہم تجارت کے لیے تیار کریں ، اس سے صدقہ (زکات) دیا کریں ]
اس باب میں اور روایات مرفوع اور موقوف بھی ہیں ۔ و اللّٰه تعالیٰ اعلم
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۵؍ ذی الحجہ ۱۳۳۱ھ)
زمین کا عشر اور پیداوار کے اخراجات:
سوال: شریعت میں جو عشر مقرر ہے، آیا وہ سرکاری مالیہ کاٹ کر ادا کیا جائے یا مالیہ سرکاری اس میں شمار کیا جائے؟ جواب مدلل قرآن و حدیث سے ہو۔
جواب: مالیہ سرکاری دو طرح کا ہے، ایک زمین کا، ایک پانی کا۔ زمین کا مالیہ کاٹ کر عشر دے، پانی کا مالیہ کاٹنے کی ضرورت نہیں ، بلکہ اس کی وجہ سے بجائے دسویں حصے کے بیسواں حصہ دے، کیونکہ نہر کا پانی قیمتاً آیا ہے، گویا ایسا ہوگیا جیسے کنویں کا پانی۔ کاٹنے کی صورت یہ ہے کہ زمین کا تمام غلہ اگر نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے پہلے اتنے دانے الگ کر لیے جائیں جتنوں سے یہ مالیہ پورا ہوجائے، اس کے بعد عشر نکالا جائے۔ حدیث میں ہے:
عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا قالت سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول: (( ما خالطت الزکاۃ مالا إلا أھلکتہ )) [1] (رواہ الشافعي، مشکوۃ، ص: ۱۴۹)
[عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس مال میں زکات خلط ملط ہوجائے تو وہ (زکات) اس کو تباہ کر دیتی ہے]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زکوۃ کا تعلق مال سے ہے اور قرآن مجید میں بھی ہے، کہ پکنے کے دن کھیتی کا حق دو۔[2] اس آیت میں عشر کو کھیتی کا حق کہا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عشر کا تعلق کھیتی سے ہے، پس جتنی کھیتی اس کے قبضہ میں ہے، اسی کی زکوۃ اس کے ذمہ ہوگی، جتنی مالیے میں گئی، وہ اس کے قبضہ میں نہیں ، اس لیے اس کی زکوۃ اس کے ذمہ نہیں پڑے گی، اس کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص کے پاس سو روپیہ ہے، ان سے پچاس چوری چلے گئے تو وہ باقی پچاس کی زکوۃ دے گا نہ کہ سو کی۔ یہی فتویٰ عبد الله صاحب روپڑی کا لکھا ہوا ہے۔[3]
|