معمولی تھا اور زید کا ہوش و حواس علی حالہ باقی تھا تو اس صورت میں ان تین طلاق کے بعد اپنی بیوی مطلقہ سے رجوع نہیں کر سکتا ہے اور نہ اس سے بغیر حلالہ کے نکاح جدید کر سکتا ہے۔ تمام محدثین اور فقہا کا بالاتفاق یہی قول ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔
بیک وقت تین طلاقوں کا وقوع اور اس کی شرعی حیثیت:
سوال: ایک شخص حنفی نے بحالت غصہ کے اپنی بیوی کو ایک ہی جلسہ میں لفظ طلاق تین مرتبہ کہا۔ بعد طلاق دینے کے برادری کے لوگوں نے اس کو کہا کہ تمھاری بیوی تم پر حرام ہوگئی اور طلاق ثابت ہوگئی، چنانچہ اس کا مسئلہ علمائے مذہب حنفیہ سے دریافت کیا گیا، بجواب اس کے علمائے حنفیہ نے یہ لکھا کہ طلاق جائز ہوگیا اور بغیر دوسرے شخص سے نکاح کیے ہوئے، پھر وہ دوسرا شخص یعنی محلل کے طلاق دینے پر محض اپنی خوشی سے اور بعد گزرنے عدت کے، تب البتہ پھر شوہر اول سے عقد نکاح جائز ہوگا، ورنہ نہیں ۔ بہر کیف برادری کے لوگوں نے ان دونوں شوہر و بیوی کو علیحدہ کر دیا، لیکن بعد تھوڑے دنوں کے ان دونوں زن و شوہر میں محبت ہوگئی اور شوہر اپنی بیوی کو اپنے مکان پر لے گیا، تب پھر برادری کے لوگوں نے اسے گرفت کیا اور اس کا حقہ تمباکو موافق دستور برادری کے بند کر دیا کہ تم حرام کاری کرتے ہو، اس پر شوہر نے اپنی برادری میں ایک کتاب لا کر دکھلایا کہ اس کتاب کے رو سے ہم نے اپنی بیوی کو لا کر رکھا ہے، چنانچہ برادری میں وہ کتاب پڑھی گئی اور وہ یہ ہے: ’’مجموعہ فتاویٰ مولانا مولوی عبدالحی صاحب ۔علیہ الرحمۃ۔‘‘ مطبوعہ مطبع یوسفی واقع لکھنو۔ اس کتاب کے جلد دویم صفحہ ۵۳ میں یہ مسطور ہے:
استفتا کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ زید نے اپنی عورت کو حالتِ غضب میں کہا کہ میں نے طلاق دیا، میں نے طلاق دیا، میں نے طلاق دیا۔ پس اس تین بار کہنے سے تین طلاق واقع ہوں گی یا نہیں اور اگر حنفی مذہب میں واقع ہوں اور شافعی میں مثلاً واقع نہ ہوں تو حنفی کو شافعی مذہب پر اس صورت خاص میں عمل کرنے کی رخصت دی جائے گی یا نہیں ؟
ھو المصوب اس صورت میں حنفی کے نزدیک تین طلاق واقع ہوں گی اور بغیر تحلیل کے نکاح نہ درست ہوگا، مگر بوقتِ ضرورت کہ اس عورت کا علیحدہ ہونا اس سے دشوار ہو اور احتمال مفاسد زائد کا ہو، تقلید کسی اور امام کی اگر کرے گا تو کچھ مضائقہ نہیں ہوگا۔ نظیر اس کی مسئلہ نکاحِ زوجہ مفقود و عدت ممتدۃ الطہر موجود ہے کہ حنفیہ عند الضرورت قولِ امام مالک پر عمل کرنے کو درست رکھتے ہیں ، چنانچہ ’’رد المحتار‘‘ میں مفصلاً مذکور ہے، لیکن اولیٰ یہ ہے کہ وہ شخص کسی عالم شافعی سے استفسار کرے اور اس کے فتوے پر عمل کرے۔ و اللّٰه أعلم۔ حررہ: محمد عبدالحی۔ عفي عنہ۔ تمام شد
جب یہ مضمون پڑھا گیا تو برادری کے لوگوں نے کہا کہ عالم شافعی سے مسئلہ دریافت کرنے کو لکھا ہے، بہتر ہے کہ عالم شافعی سے مسئلہ دریافت کیا جائے کہ ان کے نزدیک اس امر میں کیا حکم ہے؟ جب جواب آئے، اس کے
|