’’وحکم من ثبت عنہ التدلیس إذا کان عدلا أن لا یقبل منہ إلا ما صرح فیہ بالتحدیث علی الأصح‘‘[1]
[صحیح قول کے مطابق مدلس راوی جب عادل ہو تو اس کی صرف وہی روایت مقبول ہوگی جس میں وہ ’’حدثنا‘‘ وغیرہ کے ساتھ (اپنے سماع کی) تصریح کرے]
ثالثاً: اس وجہ سے کہ نام کی عظمت مسمی کی عظمت کی فرع ہے اور جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس پاخانہ میں تشریف لے جاتے تھے اور اس سے آپ کی عظمت میں کچھ فرق نہیں آتا تھا تو اس انگشتری کے پاخانہ میں لے جانے سے، جس میں آپ کا نام مبارک منقوش تھا، عظمت میں کیا فرق آسکتا ہے؟ ان وجوہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس حدیث کی صحت محلِ نظر ہے۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲؍ جمادی الثاني ۱۳۳۲ھ)
ڈاڑھی کی شرعی حیثیت:
سوال: داڑھی رکھنا سنت ہے یا فرض؟ اگر سنت ہے تو موکدہ یا غیر موکدہ اور داڑھی مونڈانا کس حدیث سے آپ ناجائز ٹھہراتے ہیں اور داڑھی رکھنا کس حدیث سے یا قرآن کی آیت سے اور داڑھی مونڈانے والا کیا ہوا: بدعتی ہے یا فاسق؟ اس کا جواب حضور بہت جلد مدلل اور مع ثبوت اور ساتھ زور آور تقریر کے بہت جلد روانہ فرمائیں ۔ آپ کی شفقت سے امید ہے کہ اس میں اغماض نہ کیجیے گا۔
جواب: داڑھی رکھنا واجب ہے اور داڑھی منڈانا حرام ہے۔ حدیث متفق علیہ میں داڑھی رکھنے کے بارے میں امر کا صیغہ وارد ہے۔ مشکوۃ شریف (ص: ۳۷۲ چھاپہ دہلی) میں ہے:
عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( خالفوا المشرکین، وفروا اللحیٰ وأحفوا الشوارب )) [2] (متفق علیہ)
’’ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں ترشواؤ۔‘‘
اس مضمون کی حدیثیں اور بھی آئی ہیں اور امر کا صیغہ وجوب کے لیے آتا ہے اور وجوب ہی اس کے حقیقی معنی ہیں ۔ جس لفظ کے جو حقیقی معنی ہیں ، اس کو چھوڑ کر بلا قرینہ دوسرے معنی جو غیر حقیقی ہیں ، مراد لینا جائز نہیں ہے۔ کما تقرر في الأصول۔ تو ثابت ہوا کہ داڑھی رکھنا واجب ہے اور جو فعل واجب ہو، اس کا خلاف حرام ہوتا ہے۔ کما تقرر في الأصول أیضاً۔ تو داڑھی منڈانا جو فعل واجب، یعنی داڑھی رکھنے کے خلاف ہے، حرام ہے اور حرام کا مرتکب فاسق ہوتا ہے تو داڑھی منڈانے والا فاسق ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه
|