فتح الباری (جز ۲/ ۵۰۱) میں ہے:
’’وفي الطبراني من حدیث ابن عباس رضی اللّٰه عنہما مرفوعاً: لا عتاق إلا لوجہ اللّٰه ‘‘[1] اھ
[طبرانی میں عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ صرف لوجہ الله ہی آزاد کرنا جائز ہے]
جب ثابت ہوا کہ وقف مذکور شرعاً صحیح نہیں ، نہ ازروے فقہ و نہ از روے حدیث تو یہ زمین جس کو بھیلوخندکار نے ناجائز وقف کیا تھا، خود خندکار کی ہی ملک رہی، پھر اس کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کی ملک ہوگئی۔ پس متولی وقف مذکور بلا اجازت مالک زمین کے نہ اس زمین کی آمدنی اپنے کام میں صَرف کر سکتا ہے اور نہ اس زمین میں مسجد بنا سکتا ہے۔ ہاں اگر مالک زمین از سر نو متولی کو اس زمین کا مالک بنائے تو متولی اس صورت میں مسجد بھی بنا سکتا ہے اور دیگر جائز تصرفات بھی کر سکتا ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۶؍ ذی الحجہ ۱۳۳۰ھ)
شرعی وقف کے لیے تقربِ الٰہی کی نیت ضروری ہے:
سوال: کیا ایسا وقف جو بخیال ثواب عقبی و حصولِ تقرب خداوندی نہ کیا گیا ہو، بلکہ محض دَین کی ادائیگی سے بچنے کی غرض سے کیا گیا ہو، ازروے فقہ حنفی جائز ہے؟ واقف کی نیت و غرض قرائن و حالات و شہادتِ گواہان معتبر سے ثابت ہوگئی ہے، یعنی یہ امر ثابت ہوگیا ہے کہ یہ وقف محض دَین جائز کی ادائیگی سے بچنے کی غرض سے کیا گیا ہے، ایسی صورت میں کیا فقہ حنفی وقف کو جائز قرار دے گی؟
جواب: ایسا وقف جو سوال میں مذکور ہے، ازروے فقہ حنفی جائز نہیں ہے۔ عدمِ جواز کی وجہ یہ ہے کہ وقفِ مسلم کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ وقف فی نفسہ قربت ہو، یعنی ایسا وقف ہو، جس سے تقرب خداوندی حاصل کیا جائے اور وقف مذکور ایسا نہیں ہے۔ در مختار میں ہے:
’’وشرطہ شرط سائر التبرعات کحریۃ و تکلیف وأن یکون قربۃ في ذاتہ‘‘[2] اھ
[وقف کی شرط جملہ عطیات کی شرط کی طرح ہے، جیسے آزاد کرنا اور پابند کرنا اور پھر یہ کہ وہ فی ذاتہ قربت ہو]
’’رد المحتار‘‘ (۳/ ۳۶۰ مطبوعہ مصر) میں ہے:
’’قولہ وأن یکون قربۃ في ذاتہ أي بأن یکون من حیث النظر إلی ذاتہ وصورتہ قربۃ، والمراد أن یحکم الشرع بأنہ لو صدر من مسلم یکون قربۃ حملاً علی أنہ قصد القربۃ (إلی قولہ) فتعین أن ھذا شرط في وقف المسلم فقط‘‘ اھ، و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔
[ان کے اس قول: ’’أن یکون قربۃ في ذاتہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات اور صورت کے اعتبار
|