[اور اگر تم انھیں اس سے پہلے طلاق دے دو کہ انھیں ہاتھ لگاؤ، اس حال میں کہ تم ان کے لیے کوئی مہر مقرر کر چکے ہو تو تم نے جو مہر مقرر کیا ہے اس کا نصف (لازم) ہے]
آیا ان دونوں کا حکم ایک ہے یا فرق ہے؟ اگر فرق ہے تو اس کا سبب کیا ہے؟ مع دلائل تحریر فرما دیں ۔
جواب: اگر حالت نابالغی کا نکاح شرعاً صحیح ثابت ہو تو صورت مندرجہ سوال میں ہندہ مذکورہ کل دینِ مہر کی مستحق ہے، اس کی دلیل حدیثِ ذیل ہے:
’’عن علقمۃ عن ابن مسعود أنہ سئل عن رجل تزوج امرأۃ، ولم یفرض لھا شیئاً، ولم یدخل بھا حتی مات، فقال ابن مسعود: لھا مثل صداق نسائھا، لا وکس ولا شطط، وعلیھا العدۃ، ولھا المیراث، فقام معقل بن سنان الأشجعي فقال: قضی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في بروع بنت واشق امرأۃ منا بمثل ما قضیت، ففرح بھا ابن مسعود‘‘[1]
(رواہ الترمذي و أبو داود والنسائي والدارمي، مشکوۃ المصابیح، باب الصداق، فصل ۲)
[علقمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا گیا، جس نے ایک عورت سے شادی کی، ابھی اس نے (مہر وغیرہ) کچھ مقرر نہ کیا تھا اور نہ اس سے صحبت ہی کی تھی کہ وہ فوت ہوگیا۔ عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے اس جیسی عورتوں کے مثل مہر ملے گا۔ نہ کم نہ زیادہ۔ اسے عدت بھی گزارنی ہوگی اور اسے (خاوند سے) وراثت بھی ملے گی۔ (یہ سن کر) معقل بن سنان اشجعی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ کے فیصلے جیسا فیصلہ کیا تھا۔ عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ اس پر خوش ہوئے]
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ موت کی حالت میں عورت کل دینِ مہر کی مستحق ہوتی ہے، حتی کہ اگر مہر مقرر نہ ہوا ہو تو پورے مہرِ مثل کی مستحق ہوتی ہے، اگرچہ ہم بستری یا خلوتِ صحیحہ وقوع میں نہ آئی ہو۔ و الله تعالیٰ أعلم۔
کتبہ محمد عبد اللّٰه
رضاعت کے مسائل
کیا بہن اپنے بھائی کو دودھ پلا سکتی ہے؟
سوال: ہندہ ایک لڑکا شیر خوار چھوڑ کر انتقال کر گئی، اس کے خویشان میں سے ایسی کوئی عورت نہیں ہے کہ اُس بچہ کی مرضعہ ہو۔ ایسی حالت میں اگر ہندہ کی لڑکی (بچہ کی بہن) دودھ پلائے تو جائز ہوگا یا نہیں ؟
|