موقف ہے۔ امام احمد اور ابو ثور نے کہا ہے کہ قبضہ کیے بغیر بھی ہبہ اور صدقہ صحیح ہے۔ علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایک غیر صحیح سند کے ساتھ یہی موقف مروی ہے۔ آج وہ وراثت والا مال ہے اور وہ (وارث) تیرے دو بھائی (عبدالرحمن اور محمد) اور دو بہنیں ہیں ۔ لہٰذا اسے کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کر لینا] و اللّٰه أعلم بالصواب
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲؍ ذی القعدۃ ۱۳۲۹ھ)
فرائض کے بعض اختلافی مسائل میں ترجیح:
سوال: دریں مسائل فرائض بین العلماء خلافے رودادہ و حاجت تصفیہ ثالث فتادہ کشف استار فرمانید
[فرائض کے درج ذیل مسائل میں علما کے مابین اختلاف واقع ہوگیا ہے، کسی ثالث کی طرف سے اس کے تصفیے کی ضرورت ہے، لہٰذا آپ ہی حقیقت حال سے نقاب کشائی کیجیے]
1۔ حسینی بیگم
مسئلہ ۳، تصحیح ۸۴
ابن الخال ابن الخال ابن الخال بنت الخال ابن خالہ بنت الخالہ بنت الخالہ
مظہر علی خاں احمد خاں ولی محمد خاں بی بی عمرہ علی حسین بی بی بدہن بی بی سدہن
۱۶ ۱۶ ۱۶ ۸ ۱۴ ۷ ۷
2۔ مسئلہ ۱۱، تصحیح ۳۰۸
ابن اخ الام ابن اخ الام ابن اخ الام بنت اخ الام ابن اخت الام بنت اخت الام بنت اخت الام
مظہر علی خان احمد خاں ولی محمد خان بی بی عمرہ علی حسین بی بی بدہن بی بی سدہن
۶۴ ۶۴ ۶۴ ۳۲ ۴۲ ۲۱ ۲۱
جواب: در صورت مسئلہ نمبر2 بہر گو نہ، یعنی ہم مسئلتاً وہم تصحیحاً صحیح است و نمبر 1 بہر گو نہ خطاست چہ حساب ثلث و ثلثین در اولاد صنف رابع ذوی الارحام و قتیست کہ حیز قرابت شان مختلف باشند یعنی بعضے از ایشاں فریق اب باشند (چوں اولاد عمات و اولاد اعمام اخیافی و اولاد بنات اعمام) و بعضے از ایشاں فریق ام (چوں اولاد اخوال و اولاد خالات) و اما اگر حیز قرابت شاں متحد باشد یعنی ہمہ فریق اب باشند یا ہمہ فریق ام دراں صورت حساب ثلث و ثلثین نیست بلکہ دراں صورت اگر یکے ازاں ایشاں ولد عصبہ نباشد (حسب قول امام محمد رحمہ اللہ مفتی بہ در مذہب حنفی ہمان است) تقسیم ترکہ بر اول بطن اصول کہ اختلاف بذکورت وانوثت دراں رودادہ باشد بحساب﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ﴾ باید کرد حصص اصول را بفروع ایشاں باعتبار صفات فروع باید داد۔
و در مانحن فیہ سہ ابن الخال ویک بنت الخال ویک ابن الخالہ و دو بنت الخالہ اند حیز قرابت شان متحد است کہ ہمہ فریق ام اند ویکے از ایشاں ولد عصبہ ہم نیست، پس حسب قول امام محمد رحمہ اللہ ہر چہار خال و سہ خالہ کہ اصول ایشا نند
|