[اگر ایسا کرنا کسی عذر کے ساتھ ہو، پس اگر وہ سابقہ حدث سے طہارت حاصل کرنے کے لیے ہو یا نمازِ خوف میں ہو تو یہ نماز کو فاسد نہیں کرے گا اور ایسا کرنا مکروہ بھی نہیں ہے، خواہ یہ چلنا کم مقدار میں ہو یا زیادہ مقدار میں ، وہ پیچھے کی طرف چلے یا نہ]
جاننا چاہیے کہ اگر نمبر 2 میں کوئی ایسا عذر پیش آجائے کہ دونوں شرطوں کی رعایت دشوار ہو تو ایسے عذر کی حالت میں دونوں شرطیں ساقط ہوجاتی ہیں ۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۲؍رجب ۱۳۳۲ھ)
تکرارِ نماز باجماعت کا حکم:
سوال: 1۔زید ایک مسجد کا امام مقرر کیا ہوا ہے، اس نے جماعت کو نماز پڑھائی، اس کے بعد بکر نے اسی زید کے مصلیٰ پر جا کر امامت کی اور اس نے بھی چار پانچ اشخاص کے ساتھ نماز پڑھی، تو بکر نے یہ کام جائز کیا یا ناجائز؟
2۔ کوئی امام مقرر بھی نہ ہو، تاہم کوئی شخص اس کے مصلے پر، جس پر فرض نماز ہوچکی ہو، اسی وقت اس مصلے پر دوسرا شخص نماز پڑھا سکتا ہے یا نہیں ؟ بینوا بالکتاب والسنۃ۔
جواب: جس مسجد میں ایک بار جماعت ہوچکی ہو، اسی مسجد میں دوبارہ جماعت سے نماز پڑھنا، اس کا ناجائز ہونا کسی صحیح حدیث میں میری نظر سے نہیں گزرا ہے، خواہ اس مسجد کا امام مقرر ہو یا نہ ہو اور امام مقرر پہلی جماعت کرا چکا ہو یا دوسرے شخص نے پہلی جماعت کرائی ہو۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۴؍ربیع الثاني ۱۳۳۱ھ)
بلا عذر مسجد کو چھوڑ کر گھر میں نماز پڑھنے کا حکم:
سوال: ایسی مسجد کہ قرب و جوار میں جہاں پنج گانہ اذان نماز و جمعہ ادا کیے جاتے ہوں اور کوئی شخص علیحدہ اپنے مکان میں نماز ادا کیا کرے، اذان کی آواز بھی سنتا ہو، تارک السنۃ النبویّۃ ہے یا نہیں ؟ ایسے شخص کی نماز مطابق احادیث صحیح ہوتی ہے یا نہیں ؟ کوئی عذر شرعی بھی نہیں ۔
جواب: بلا عذر ایسی مسجد کی جماعت چھوڑ کر علیحدہ نماز پڑھنا ہرگز جائز نہیں ہے اور نہ ایسی نماز قبول ہوتی ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ سعادت مہد میں کھلے ہوئے منافق کے سوا اور کوئی بلاعذر ایسی جماعت سے علیحدہ نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ ایسا مریض جو بغیر دو شخصوں کے کندھوں پر ٹیک دیے ہوئے اپنے آپ کو مسجد حاضر نہیں کر سکتا ہے، وہ بھی غیر حاضر نہیں رہتا تھا، بلکہ دو شخصوں کے کندھوں پر ٹیک دے کر ضرور حاضر ہوتا تھا اور مسجد کے پڑوسی نابینا جن کا کوئی دستگیر نہیں ہوتا، ان کا بھی یہ عذر نابینائی مسموع نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کو بھی حاضر ہونے کا حکم ہوتا تھا اور خود حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الموت میں اس وقت تک شریکِ جماعت ہوا کیے، جب تک کہ دو شخصوں کے کندھوں پر ٹیک دے کر حاضر مسجد ہوسکتے تھے اور ایسی جماعت میں حاضری کی ایسی سخت تاکید تھی کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر حاضر ہونے والوں کو مع ان کے گھروں کے پھونک دینے کا قصد ظاہر فرمایا تھا۔ الحاصل بلا عذر ایسی جماعت چھوڑ کر
|