فإنہ رجل أعمی، تضعین ثیابک۔[1]الحدیث
[ابو سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ ابو عمرو بن حفص نے ان کو طلاقِ بتہ (مختلف اوقات میں تین طلاقیں ) دے دیں اور وہ خود (گھر میں ) موجود نہیں تھے۔ ان کے وکیل نے فاطمہ کی طرف کچھ جَو بھیجے تو وہ اس پر راضی نہ ہوئیں ۔ وکیل نے کہا: الله کی قسم! تیرے لیے ہم پر کوئی چیز واجب ہی نہیں ہے۔ وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’اس کے ذمے تمھارا کوئی خرچ نہیں ہے‘‘، پھر ان کو حکم دیا کہ وہ ام شریک رضی اللہ عنہا کے ہاں عدت گزارے۔ پھر فرمایا: اس عورت کے ہاں میرے صحابہ آتے رہتے ہیں ، تو ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو، وہ نابینا آدمی ہے، تمھیں اپنے کپڑے اتارنے میں بھی آسانی رہے گی] و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔
اگر طلاق کے بعد عورت کا حمل ظاہر ہو جائے؟
سوال: زید نے ایک عورت کے ساتھ نکاح کیا اور اس بی بی سے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ بعدہ بوجہ نااتفاقی آپس کے اس بی بی کو طلاق دے دیا اور وہ بی بی بعد طلاق کے حاملہ ظاہر ہوئی تو ایسی حالت میں طلاق واجب ہو کر مطلقہ ہوئی یا نہیں اور بوجہ حمل کیا حکم ہے اور وہ لڑکی کس کی ہوگی؟ زید اتنی مدت تک کوئی مکان جائے پذیر نہیں دیا، بجز مکان کرایہ کے تو اس پر عدت کیا ہے اور دربارہ مکان کیا حکم ہے اور بوجہ نا اتفاقی رجعت کی خواہش نہیں تو عورت مطلقہ کو مکان بنا دے سکتا ہے؟ کیا حکم ہے؟
جواب: ایسی حالت میں زید کی بی بی مطلقہ ہوگئی اور وہ حمل جو بعد طلاق کے ظاہر ہوا، اگر طلاق کے قبل کا ہے، تو عدت واجب ہے اور ایسی حالت میں عدت وضع حمل ہے اور زید پر عدت کا نفقہ و سکنی واجب ہے، یعنی زمانہ عدت یعنی وضع حمل تک زید پر واجب ہے کہ اس بی بی کو خرچ اور رہنے کا مکان دے، خواہ وہ مکان زید کے نج کا ہو، خواہ کرایہ کا، خواہ عاریت کا اور زید کو تا انقضاے عدت رجعت کا حق حاصل ہے۔ اگر وہ حمل طلاق کے بعد اور عدت کے اندر کا زید ہی سے ہے تو اس حمل سے رجعت ہوگئی اور وہ بی بی پھر زید کی بی بی ہوگئی اور ان دونوں صورتوں میں جو اس حمل سے اولاد ہوگی، لڑکا خواہ لڑکی، زید کی اولاد ہوگی، جس طرح وہ پہلی لڑکی جو طلاق کے قبل پیدا ہوئی، زید کی اولاد ہے۔ و الله أعلم بالصواب۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ)
کیا شوہر کے ترکے سے بیوی نان و نفقہ کا حق رکھتی ہے؟
سوال: زید متوفی کا نکاح ہندہ کے ساتھ بعوض اکتالیس ہزار روپیہ اور ایک اشرفی اور علاوہ اس کے نان و نفقہ ہوا تھا تو آیا نان و نفقہ بعد مماتِ زید متوفی مذکور کے ہندہ مذکور کا ذمہ زید متوفی کے باقی رہا یا نہیں اور نان و نفقہ جزوِ معاوضہ نکاح سمجھا جائے گا یا نہیں اور اس وجہ سے زوجہ تاحیاتِ خود مستحق پانے نان و نفقہ کی جائداد سے زید متوفی کے ہے یا نہیں ؟
|