حصص کی تقسیم
خاوند، دو بیٹیاں ، ایک پوتا اور ایک پوتی:
سوال: ہندہ ایک زوج و دو دختر و ایک پوتا و ایک پوتی چھوڑ کر فوت ہوگئی۔ بعدہ زوج ہندہ متوفیہ فوت ہوگیا۔ وارثان مذکورین چھوڑے، پس عند الشرع ترکہ وارثان پر کیونکر تقسیم ہوگا؟
جواب: ہندہ
زوج بنت بنت ابن الابن بنت الابن
کأن لم یکن ۳ ۳ ۲ ۱
و اللّٰه أعلم بالصواب۔
یہ جواب صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ وارث میت سابق کأن لم یکن [گویا وہ موجود ہی نہیں ] اس وقت قرار دیا جاتا ہے، جبکہ وارث مذکور کے مرنے کے بعد اس کے ورثہ بھی باستثناء اس کے وہی ہوں ، جو ورثہ میت سابق تھے اور طریقہ تقسیم ترکہ ہر دو میت (میت سابق و میت لاحق) بھی یکساں ہو۔ صورتِ مسؤلہ میں ایسا نہیں ہے اور اگر کأن لم یکن قرار دینے کی یہ شرط نہ ہو تو ہوسکتا ہے کہ بعض ورثہ کی حق تلفی ہوجائے، مثلاً صورتِ مسؤلہ میں ترکہ ہندہ سے بنتین کو پانچ سدس اور ابن الابن و بنت الابن کو ایک سدس ملنا چاہیے اور کأن لم یکن کی تقدیر پر بنتین فقط ثلثین، یعنی چار سدس اور ابن الابن و بنت الابن کو ایک ثلث یعنی دو سدس ملتا ہے، یعنی کأن لم یکن کی تقدیر پر بنتین کے حق میں ایک سدس کی کمی لازم آتی ہے۔ الحاصل کأن لم یکن وہاں قرار دیا جاتا ہے، جہاں بلا لزوم حق تلفی کسی وارث کے عمل میں اختصار حاصل ہوتا ہو اور جہاں حق تلفی لازم آجائے، وہاں کان لم یکن قرار دینا جائز نہیں ہے۔ (دیکھو: فرائض شریفی، آغاز باب المناسخہ)
اس جواب کے عدمِ صحت کی یہی ایک وجہ اس وقت ہے کہ ورثہ مذکورین جس طرح ہندہ کی بنتیں و ابن الابن و بنت الابن ہیں ، اسی طرح اس کے زوج مذکور کے بھی ہوں ، ورنہ اس جواب کے عدمِ صحت کی وجہ علاوہ وجہ مذکور کے اور بھی ہو سکتی ہے۔
خاوند، بھائی اور والدہ:
سوال: کسی شخص کی بی بی نے لا ولد قضا کیا اور اس کے تین وارث ہیں : شوہر، برادر کلاں ، والدہ۔ اس کے دینِ مہر کے لینے کا حق ان میں سے کس کو ہے: تینوں کو یا ایک کو؟ اگر ایک کو ہے تو کس کو اور تینوں کو ہے تو کس کو کتنا حق ہے؟
جواب: مسماۃ مذکورہ کے تینوں وارث اس کے دینِ مہر کے لینے کے مستحق ہیں ۔ اس کا مہر صرف چھ سہام پر تقسیم ہوگا، اس میں سے نصف، یعنی تین سہام شوہر کو اور ثلث یعنی دو سہام والدہ کو اور باقی ایک سہم برادر کو ملے گا۔ والدہ اور برادر اپنا اپنا حق شوہر سے لے سکتے ہیں ۔
|