[عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنے خاوند ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ پر دین یا خلق کے لحاظ سے کوئی عیب نہیں لگاتی، لیکن میں مسلمان ہو کر کفر کے کام کرنا ناپسند کرتی ہوں ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو اس کا دیا ہوا باغ اسے واپس کر ے گی؟‘‘ انھوں نے کہا: جی ہاں ۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے (ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: باغ لے لو اور اسے طلاق دے دو]
کتبہ: أبو العلی محمد عبدالرحمن المبارکفوري، عفا اللّٰه عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔
اگر نامرد شوہر طلاق نہ دے تو بیوی کیا کرے؟
سوال: اگر کسی عورت کا شوہر عنین [نامرد] ہو اور شوہر اس کا طلاق نہیں دیتا ہے اور وہ عورت طلاق چاہتی ہے تو ایسی حالت میں وہ عورت کیا کرے گی؟
جواب: اگر کسی عورت کا شوہر عنین ہے اور وہ اس کو طلاق نہیں دیتا ہے اور عورت طلاق چاہتی ہے تو وہ عورت خلع یاکسی دوسری طرح تفریق کرائے گی۔ اگرچہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کوئی واقعہ بعینہٖ اس قسم کا نہیں ہوا تھا، جس کو ہم سند میں پیش کر سکیں ، مگر آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اس کی نظیر میں موجود ہیں ۔ دیکھو: ہدایہ (۱/ ۴۰۰ مطبوعہ مصطفائی) میں ہے:
’’وإذا کان الزوج عنینا، أجلہ الحاکم سنۃ، فإن وصل إلیھا فبھا وإلا فرق بینھما إذا طلبت المرأۃ ذلک، ھکذا روي عن عمر و علي و ابن مسعود رضی اللّٰه عنہم ، ولأن الحق ثابت لھا في الوطأ، ویحتمل أن یکون الامتناع لعلۃ معترضۃ، ویحتمل لآفۃ أصلیۃ، فلا بد من مدۃ معرفۃ لذلک، وقدرناھا بالسنۃ لاشتمالھا علیٰ الفصول الأربعۃ فإذا مضت المدۃ، ولم یصل إلیھا، تبین أن العجز بآفۃ أصلیۃ ففات الإمساک بالمعروف، ووجب علیہ التسریح بالإحسان فإذا امتنع ناب القاضي منابہ ففرق بینھما، ولا بد من طلبھا لأن التفریق حقھا‘‘
[جب شوہر نامرد ہو تو حاکمِ وقت اس کو (علاج کے لیے) ایک سال کی مہلت دے گا۔ اس کے بعد اگر وہ اپنی بیوی سے جماع کرنے پر قادر ہوگیا تو ٹھیک! ورنہ ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی، جب عورت اس کا مطالبہ کرے۔ چنانچہ عمر، علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے، کیونکہ عورت کے لیے وطی کا حق ثابت ہے۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یہ رکاوٹ کسی پیش آمدہ علت کے سبب سے ہو۔ نیز اس میں آفتِ اصلیہ کا بھی احتمال ہے۔ لہٰذا کچھ مدت کی مہلت دی جانی چاہیے، جس سے صورتِ حال واضح ہوسکے۔ ہم نے ایک سال کی مدت مقرر کی ہے، کیونکہ سال چار موسموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پس
|