ابو معاویہ سے روایت کی ہے اور ابن ابی شیبہ سے بشر بن مفضل سے روایت کیا ہے اور تینوں نے سہیل بن ابو صالح سے روایت کی ہے اور سہیل نے اپنے باپ ابو صالح سے کہ میرے پاس اتنا مال ہوگیا تھا جس پر زکات فرض ہوتی ہے تو میں نے سعد بن ابی وقاص اور ابن عمر اور ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ میں خود اس کو بانٹ دوں یا سردار کے حوالے کروں ؟ تو کسی نے اختلاف نہ کیا، بلکہ سب نے بالاتفاق یہی جواب دیا کہ سردار کے حوالے کرو اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ میں نے کہا کہ یہ سردار جو کچھ کرتے ہیں وہ تو آپ دیکھتے ہی ہیں ۔ اس پر بھی اپنی زکات ان کے حوالے کر دوں ؟ فرمایا: ہاں ، اس کو بیہقی نے ان لوگوں سے اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں سے روایت کیا ہے۔
اور ابن ابی شیبہ سے قزعہ کی سند سے روایت کی ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں مال دار ہوں ، پس اس کی زکات کس کو دوں ؟ کہا کہ ان لوگوں کے حوالے کر یعنی سرداروں کے۔ میں نے کہا کہ وہ تو اس کو اپنے کپڑے اور خوشبو میں خرچ کر ڈالیں گے، کہا تمھاری بلا سے۔ ابن ابی شیبہ نے نافع کی سند سے روایت کی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اپنے مالوں کی زکات ان سرداروں کے حوالے کرو جن کو الله نے تمھارے کام کا والی بنایا ہے، جو سردار نیک برتاؤ کرے گا، اپنا بھلا کرے گا، جو برا برتاؤ کرے گا، اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔
اسی باب میں ابن ابی شیبہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور مغیرہ بن شعبہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی روایت کی ہے اور ابن ابی شیبہ نے خیثمہ سے جو روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے زکات کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ وہ سرداروں کے حوالے کرو، پھر اس کے بعد ان سے پوچھا تو کہا کہ ان کو مت دے، کیونکہ انھوں نے نماز کو ضائع کر ڈالا، مگر یہ روایت ضعیف ہے، اس میں راوی جابر جعفی بہت ہی ضعیف ہے۔
اس امر کی دلیل کہ سردار کیسا ہی ہو، مگر زکات اسی کو دینا چاہیے وہ حدیث ہے جس کو مسلم نے جریر سے مرفوعاً روایت کی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زکات لینے والوں کو راضی رکھو۔‘‘ یہ اس وقت فرمایا تھا، جب بدؤوں نے نالش کی تھی، زکات لینے والے اگر ہم پر ظلم کرتے ہیں اور ابو داود نے جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ ’’قریب ہے تمھارے پاس ظالم تحصیلدار آئیں گے، وہ جب آئیں تمھارے پاس تو تم ان کو خوش کرو اور وہ جو چاہیں ان کو لینے دو، اگر وہ انصاف کریں گے تو اپنا بھلا کریں گے اور بے انصافی کریں گے تو اس کا وبال انھیں پر ہے، بہرحال ان کو راضی رکھو، کیونکہ تمھاری زکات کا پورا ہونا ان کو راضی رکھنے میں ہے۔‘‘ اور طبرانی نے اوسط میں سعد بن ابی وقاص سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ ’’اس زکات کو سردار کے حوالے کرو، جب تک وہ پانچوں وقت کی نمازیں پڑھیں ۔‘‘ اور احمد اور حارث اور ابنِ وہب نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے آکر عرض
|