غالب آگئی تھی۔
ان واقعات کو ایک اور پہلو سے دیکھیے:
۷۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ چاہت تھی کہ آپ نماز فجر کے لیے بیدار ہوں۔لیکن آپ کی تقدیر میں لکھا تھا کہ آپ سوتے رہیں گے۔چنانچہ آپ وقت پر بیدار نہ ہو سکے۔گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت پر اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی۔اب ذرا اس حدیث شریف کو اپنے ذہن میں تازہ کیجیے جس میں ہے کہ ایک بدو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔اس نے کہا:
((مَا شَائَ اللّٰہُ وَ شِئْتَ۔))
’’جو اللہ تعالیٰ چاہیں اور جو آپ چاہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں سے اس کا یہ جملہ ٹکرایا تو آپ نے اسی وقت اس کی درستگی فرما دی کہ ’’تم نے تو یہ بات کہہ کر مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا دیا۔‘‘
تم صرف یہ کہو:
((بَلْ مَا شَائَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ))
’’ہو گاصرف وہی جو اللہ وحدہ چاہیں گے۔‘‘ [1]
یعنی صرف اور صرف وہی ہوگا جو اللہ رب العزت کی چاہت اور مرضی ہو گی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا بھی گوارا نہ تھا کہ کوئی شخص آپ کے سامنے عقیدے کی گمراہی کا ایک لفظ بھی کہہ دیتا۔اب اگر کوئی شخص اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں یہ کہہ دے کہ ’’جو اللہ اور اس کا رسول چاہیں،وہ ہو گا ‘‘ کا عقیدہ رکھنا درست نہیں۔کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے،تو انصاف سے کہئے! کیا یہ بات غلط ہو گی؟ کیا ہم فرمانِ نبوی کا اکرام کرنے والے کو بے ادب اور گستاخِ رسول کہہ دیں گے؟
|