۱۰۔رات کے اندھیرے میں قبائل سے ملاقات:
نامور مؤرخ ڈاکٹر علی محمد الصلابی اپنی معرکہ آراء کتاب ’’سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘ میں مندرجہ بالا عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اعلیٰ دانائی برؤے کار لاتے ہوئے رات کے اندھیرے میں قبائل کے پاس جانے لگے تاکہ آپ اور ان کے درمیان کوئی مشرک حائل نہ ہو سکے۔یوں آپ مخالفانہ پروپیگنڈے سے جو آپ کی دعوتی مصروفیات کے وقت پھیلایا کرتے تھے،نجات پا گئے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے اندھیرے میں اوس و خزرج کے قبائل سے ملاقات کی اور بیعت عقبہ اولیٰ و ثانیہ کے اہم واقعات بھی رات کو پیش آئے۔‘‘[1]
۱۱۔مدینہ طیبہ میں اسلام کی آمد:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ اسلام کرتے ہوئے دس برس کا عرصہ ہو چکا تھا،لیکن ابھی تک مکہ والوں کے جور و ستم میں کمی نہیں ہوئی تھی۔اس طویل عرصے میں عزم و استقامت اور اخلاص و وفا کی لازوال اور ان مٹ داستانیں رقم کرنے کے باوجود آپ اور آپ کے جاں نثار مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پائے تھے۔یہ نبوت کا گیارہواں سال تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً رات کے وقت حج کے موقعہ پر آنے والے افراد سے ملتے اور انہیں اسلام کا پیغام پہنچاتے۔اس برس بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے اندھیرے میں مختلف قبائل کے ڈیروں پر جا رہے تھے اور ان تک اسلام کی روشنی پہنچا رہے تھے۔’’الرحیق المختوم‘‘ کے مصنف کے بقول:
’’اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا جو بیڑا اٹھا رکھا تھا،اس کے تئیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی یہ
|