ذرا آیت مبارکہ کا ترجمہ ذہن میں تازہ کیجیے۔
’’اگر آپ ان کو عذاب میں مبتلا کر دیں .....‘‘
اس آیت مبارکہ میں کون لوگ مراد ہیں ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مغفرت کے لیے تو یہ دعا نہیں فرما رہے تھے۔آپ کے تو اگلے پچھلے سب گناہ معاف تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے تو جنت کے دروازے کھلنے ہیں۔آپ تو جنت الفردوس کے مکین ہیں۔روزِ آخرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت تو ہم سیاہ کاروں کے لیے اُمید کی کرن ہے۔آپ کو تو اس الحاح و زاری کی حاجت ہی نہیں تھی۔پھر آپ کے خلفاء راشدین سیّدنا ابوبکر،عمر،عثمان اور علی رضی اللہ عنہم ہیں۔وہ تو دنیا میں بھی آپ کے رفیق تھے۔جنت الفردوس میں بھی آپ کے رفیق ہوں گے۔پھر عشرہ مبشرہ ہیں۔بھلا جن خوش نصیبوں کو لسان رسالت سے جنت کی بشارت ملی ہو،ان کی مغفرت میں کوئی شک و شبہ ہوسکتا ہے؟ ایسا گمان تو کوئی کافر ہی کرسکتا ہے۔پھر اصحاب بدر تھے۔حدیبیہ والے تھے،آپ کے دیگر اصحاب تھے۔ان کے لیے تو رضی اللّٰہ عنہم و رضواعنہ[1] کی سند فضیلت آچکی۔یہ تو میں اور آپ تھے کہ جن کے لیے رات بھر آقائے کائنات آنکھوں میں آنسو لیے بارگاہ الٰہی سے پروانہ مغفرت طلب کرتے رہے اور ایک ہم ہیں کہ بے دھڑک اللہ رب العزت کی نافرمانیوں سے اپنے اعمال نامے بھاری کرتے جا رہے ہیں۔ذرا سوچیے! ہم مسلمانوں نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا قدر کی؟ آج ہم انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جس شامت اعمال سے گزر رہے ہیں،کہیں اسی نعمت عظمیٰ کی ناقدری کا شاخسانہ تو نہیں ؟
۶۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کو اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنا:
حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بھی ان خوش بخت اصحاب میں سے تھے کہ
|