بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تو آدم علیہ السلام سے بھی پہلے کی ہے۔آپ اس وقت بھی نبی تھے جبکہ ابھی اس کائنات کی تشکیل بھی نہیں ہوئی تھی،تو سوال یہ ہے کہ اولین وحی کے موقع پر ہمارے آقا و مولیٰ علیہ السلام ....کہ کل کائنات ان پر قربان....وہ اس قدر خوف زدہ کیوں ہوگئے تھے؟ انہیں کیوں اپنی جان کا خوف لاحق ہوگیا؟وحشت و خوف کی یہ کیفیت بشریت مصطفویٰ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی ایک بڑی دلیل ہے۔جبرائیل علیہ السلام سے اولین ملاقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی تکلیف کا سامنا فرمایا کہ جس کا آپ کو قطعاً اندازہ نہ تھا۔
یہ ساری باتیں کیا واضح نہیں کر رہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز اس وقت ہوا جب آپ پر وحی نازل ہوئی۔اور پھر سب سے پہلے ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے آگاہ کیا۔جبکہ اس وقت تک ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آمد جبرائیل کے باوجود اپنے اعزاز و مرتبے سے واقف نہیں تھے۔خاتون جنت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر نامدار کو نہایت عمدہ اسلوب میں حوصلہ اور تسلی دے چکی تھیں لیکن وہ بھی نہیں جانتی تھیں کہ وہ اب عرب کے ایک صالح اور خوش خصال انسان محمد بن عبداللہ کی اہلیہ ہی نہیں رہیں بلکہ امام الانبیاء رحمۃ للعالمین سید ولد آدم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ بن چکی ہیں۔
۵۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی کیفیت :
صفوان بن یعلی اپنے والد حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کرتے ہیں :
’’میری تمنا تھی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت زیارت کروں،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہو۔پس جب ہم جعرانہ میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا جس نے خلوق لگی ہوئی منقش چادریں اوڑھی ہوئی تھیں۔اس نے عرض کیا: ’’میں نے عمرہ کی نیت
|