جو سوال کیا،وہ اپنے اندر عقاید کی اصلاح کا سبق رکھتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا:
تم مجھے حقیقت حال سے آگاہ کرو گی یا اللہ اللطیف الخبیر یعنی اللہ باریک بین خبردار مجھے حقیقت سے آگاہ کرے گا؟
یعنی اگر تم مجھے نہیں بھی بتاؤ گی تو اللہ تعالیٰ کہ جن سے کچھ بھی مخفی نہیں،وہ تو ضرور بتلا دیں گے۔دوسرے الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اپنی لا علمی کا اظہار فرمایا وہیں اپنے علم کی وسعتوں کو اللہ رب العزت کی طرف سے آنے والی وحی تک محدود فرما دیا۔
۱۰۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفہامیہ فرمایا: تو پھر وہ سیاہ ہیولا تم تھیں جو مجھ سے آگے چل رہی تھیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیّدہ سلام اللہ علیہا سے یہ پوچھنا ہی واضح کر رہا ہے کہ آپ کو معلوم نہ تھا کہ آپ کے آگے آگے کون چل رہا تھا۔آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے،کیا یہ ممکن تھا کہ آپ کوئی ایسی بات فرماتے کہ جو حقیقت حال کے برعکس ہوتی؟
۱۱۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب بھی غور طلب ہے کہ اگر لوگ کچھ چھپائیں گے تو اللہ تعالیٰ تو باخبر ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقت سے آگاہ کر دیں گے۔یعنی سیّدہ رضی اللہ عنہا نے بھی براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں کہا کہ آپ مخفی اُمور کو جان لیں گے،یا آپ سے بھلا کچھ پوشیدہ رہ سکتا ہے،بلکہ یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ باخبرہیں۔وہ آپ کو آگاہ فرما دیں گے۔
۵۷۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص نصرتِ الٰہی:
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ
|