تھے کہ کہیں (خدانخواستہ) آپ کو جن نہ اٹھا لے گئے ہوں یا (کسی دشمن نے) دھوکے سے نہ مار ڈالا ہو۔خدا ہی جانتا ہے،وہ رات ہم سب نے کس اذیت ناک طریقے سے گزاری۔کسی نے ایسی تکلیف دہ رات نہیں گزاری ہوگی۔پھر جب صبح ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم حراء کی جانب سے تشریف لا رہے تھے۔ہم نے اپنی بری حالت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا،جو آپ کی عارضی جدائی میں ہم پر گزری تھی۔ہم نے بتایا کہ کس کس طرح ہم نے ہر طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا۔ایسی بری رات تو کسی قوم پر نہیں آئی ہوگی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنوں کی طرف سے ایک پیامبر آیا تھا تو میں اس کے ساتھ چلا گیا اور انہیں قرآن کریم پڑھ کر سنایا۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے ساتھ وہاں لے گئے اور ہمیں جنات کے آثار دکھائے۔وہاں ان کی آگ کے نشانات تھے....آخر حدیث تک۔[1]
۴۹۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیبین کے جنوں کو رات کے وقت قرآن کریم پڑھایا:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرداران بنو ثقیف سے ناامید ہو کر واپس مکہ تشریف لا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی نخلہ میں قیام کیا اور رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔اس وقت وہاں سے نَصیبین علاقے کے جنوں کا قافلہ گزرا۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن سنا تو وہ مسلمان ہو گئے اور اسی وقت ڈرانے کی غرض سے اپنی قوم کی طرف روانہ ہو گئے۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قصے سے آگاہ فرمایا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاِِذْ صَرَفْنَا اِِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا
|